طلبہ یونین کی بحالی کے لیے نوجوانوں کے ملک بھر میں مظاہرے


اسلام آباد: اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے جھنڈے تلے سینکڑوں نوجوانوں نے طلبہ ہونین کی بحالی، کیمپس میں ہراسگی، طبقاتی نظام تعلیم، قومی، صنفی و مذہبی تعصب کے خاتمے، ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کی فراہمی کے لیے ملک بھر میں مظاہرے کیے۔

جمعہ کے روز پاکستان  کے 50  سے زائد شہروں بشمول لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، گلگت، مظفر آباد اور میر پور میں ہزاروں طالبہ اور نوجوان اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کرتے سڑکوں پر نکل آئے اور مطالبہ کیا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست پر لگی پابندی فوراً ختم کی جائے۔

لاہور میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے پریس کلب سے پنجاب اسمبلی بلڈنگ تک ریلی لکالی اور مطالبات کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔ پشاور میں طلبہ پریس کلب سے خیبر پختونخوا اسمبلی کی عمارت تک مارچ کیا اور طلبہ یونین کی فوری بحالی اور یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

 وفاقی دارلحکومت میں ترقی پسند طلبہ تنظیموں بشمول پرگریسیو سٹوڈنٹس فیڈریشن (پی آر ایس ایف) ، ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ (آر ایس ایف) ، آل بلتستان موومنٹ (اے بی ایم)، بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ، جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن اور دیگر طلبہ تنظیموں نے سٹوڈنس ایکشن کمیٹی کے جھنڈے تلے اسلام آباد پریس کلب سے ڈی چوک تک ریلی نکالی۔

اسلام آباد میں اسٹودنٹس ایکشن کمیٹی (ایس اے سی) کے آرگنائزر اور پی آر ایس ایف کے رہنما منہاج العارفین نے ریلی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رواں برس تعلیمی اداروں کی انتظامی نااہلی کے باعث چار سے پانچ طلبہ کی اموات ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر یونیورسٹی میں فیسوں میں اضافہ، میڈیکل سہولیات کی کمی، ٹرانسپورٹیشن اور ہراسمنٹ کے خلاف احتجاج ہوئے مگر کسی کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگی۔

ان کا کہنا تھا جن کے لیے تعلیمی نظام بنایا گیا ہے انہیں اس نظام میں نمائندگی حاصل نہیں۔ یہ نمائندگی طلبہ یونین کی بحالی سے ہی ممکن ہے اور ہم طلبہ یونین کی بحالی کے لیے ہر قانونی اور مزاحمتی راستہ اختیار کریں گے۔

اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ (آر ایس ایف) کی نمائندگی کرتے ہوئے ریحانہ اختر نے کہا کہ گزشتہ تیس برس سے طلبہ یونین پہ پابندی کے باعث طلبہ آمروں، تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور وزارتِ تعلیم کے جبر و استحصال کا شکار رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پچاس سے زائد شہروں میں ہونے والے مارچ نے جبر و ظلم کی ان شکنجوں کو اکھاڑ پھینکا ہے اب ہم طلبہ یونین بحال کراکے ہی دم لیں گے۔

انہوں نے فیصوں میں ہوشربا اضافے پر شدید تنقید کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ کالج تک مفت تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرکے یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے۔

اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی آرگنائزنگ کمیٹی کی ممبرمنیبہ حفیظ نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے تدارک کے لئے موثر پالیسیاں نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ خصوصاً طالبات کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بلوچستان یونیورسٹی جیسے جنسی ہراسانی کے واقعات پیش آتے ہیں جہاں ہزاروں طالبات انتظامیہ کی درندگی کا شکار ہوئیں ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام تعلیمی اداروں میں فی الفور جنسی ہراسانی کے حوالے سے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں اور کمیٹیوں میں طالبات کی کم از کم 33 فیصد نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔

ایس اے سی اور پی آر ایس ایف کے ممبر دانش یاسین نے کہا ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم طبقاتی ہے جو کہ محض طبقۂ اولیٰ کے مفادات کا محافظ ہے۔ نظامِ تعلیم جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کے سبب کارآمد پروفیشنل پیدا نہیں ہوپارہے جس کے باعث ملک کے تمام ادارے دگرگوں حالت میں ہیں۔ ہم یونین کی بحالی اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ غیر طبقاتی تعلیمی نظام کا مطالبہ کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان یونیورسٹی: طلبہ کے لیے یونیفارم پہننا لازمی قرار دے دیا گیا

سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی نمائندگی کرتے ہوئے راشد نے کہا ہمارا نصاب تعصب و نفرت پہ مبنی ہے، جو کہ معاشرے میں شدت پسند ذہنیت کو جنم دے رہا ہے، ہم نصاب کو تعصب و نفرت سے پاک اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ چاہتے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام علاقوں کے تمام اضلاع میں کم از کم ایک ایک یونیورسٹی قائم کی جائے ملک کی تمام یونیورسٹیز میں دوردراز کے علاقوں کے کوٹے بڑھائے جائیں۔

اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کے آرگنائزر ثناگر علی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اسٹوڈنٹ یونینز پر پابندی طالم علموں کے آئینی حقوق کے خلاف ہے۔ یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ طلبہ یونینز پر پابندی دراصل طالب علموں کے وجود کی نفی کے مترادف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج طالب علموں کو ان کے وجود کی بقا کا مسئلہ لاحق ہے۔ ہم اپنی تاریخ خود اپنے ہاتھوں سے لکھیں گے اور ایک بار پھر پاکستان اور اس کے زیر انتظام۔علاقوں میں طالب علموں کی آواز بلند کرکے یونینز کی بحالی اور اس کے بعد بھی جدوجہد جاری رکھینگے۔

سماجی تبدیلی کے لئے لازم ہے کہ تعلیمی انقلاب برپا کیا جائے۔ اس کو لانے کا سب بڑا ذریعہ طالب علم خود ہیں۔

عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما عمار رشید نے عوامی ورکرز پارٹی کی جانب سے مارچ کی مکمل حمایت اور مطالبات کی منظوری تک طلبہ کے شانہ بشانہ جدوجہد کا اعلان کیا ۔

انہوں نے ریاستی مشینری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین موجود ہیں مگر ہمارے ملک میں چالیس برس سے پابندی ہے اور کوئی بھی ادارہ اور پارلیمانی جماعت نے یونین کی بحالی کی کوشش نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ نظام محض چند مخصوص لوگوں کے حوالے کرکے ساٹھ فیصد کی اکثریت کو تاریکی کے گہرے کنوؤں میں نہیں دھکیلا جاسکتا۔ یہ نظامِ تعلیم کھوکھلا اور بحران کا شکار ہے اسکی ازسرِنو تشکیل کی جنگ لڑنے والے ہر ایک طالبِ علم کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔

وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کی نمائدہ شہزادی حسین نے خطاب کرتے ہوئے ایس اے سی کو کامیاب ریلی کے انعقاد مبارکباد دیتے ہوئے مارچ کے تمام مطالبات کی حمائت کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ریاست آئی ایم ایف کی مسلط کردہ پالیسیوں کے ذریعے تعلیمی اداروں کی نجکاری کر رہی ہے اور عوام پر تعلیم کے دروازے بند کر رہی ہے۔ شہزادی حسین نے مطالبہ کیا کہ تعلیمی اداروں اور دیگر قومی اساسوں کی نجکاری روک دی جائے۔

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی چیف لیگل آفیسر رباب نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ایم سی آرڈیننس کے آرٹیکل 20 کے ذریعے تعلیم کو نجکاری کرنے کی کوشش کی گئ ہے جس سے عوام کو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم کر دیا جائے گا۔

انہوں نے مذید کہا کہ اسی آرڈیننس کے آرٹیکل 21 کے اندر لائسنس ایگزام مقرر کیا گیا ہے، بجائے اس کے یونیورسٹی کے امتحانات، فیکلٹی، انفراسٹرکچر اور دیگر سہولیات جن کو بہتر کرنے کے لئے پی ایم ڈی سے کئی دہائیوں سے کوشش کرتی رہی ہے۔

رباب نے کہا کہ پی ایم سی آرڈیننس کے آرٹیکل 49 کے ذریعے 220 ملازمین کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے جو کہ 220 خاندانوں کا معاشی قتل ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پی ایم سی آرڈیننس کو مکمل رد کرتے ہیں اور پی ایم ڈی سی کو بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے نئے میڈیکل کالجز کے قیام کا مطالبہ کیا۔

اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی اور آل بلتستان موومنٹ کے نمائندے شریف اخونزادہ نے پاکستان کے زیر انتظام گلگت-بلتستان میں تعلیمی اداروں کی شرمناک حد تک خراب حالت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ 20 لاکھ کی آبادی والے علاقے کے طلبہ کے لئے صرف ایک ہی یونیورسٹی ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ گلگت-بلتستان میں کم از کم ایک انجنیئرنگ یونیورسٹی اور ایک میڈیکل یونیورسٹی اور ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی جلد از جلد قائم کی جائے۔
انہوں نے مذید کہا کہ گلگت-بلتستان کے تعلیمی نصاب کو طلبہ کے ساتھ مشاورت سے تبدیل کرکے سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے تاکہ طلبہ میں تنقیدی سوچ فروغ پائے اور نفرت اور انتہاپسندی کا خاتمہ ہو۔

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رہنماؤں نے مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ضیاء آمریت نے اپنی آمریت کو دوام بخشنے کیلئے طلبہ یونین پر پابندی لگا کر نوجوانوں کا راستہ روک کر اس ملک کو ہمیشہ کیلئے بحرانوں میں ڈال دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا  واضح ثبوت بلوچستان یونیورسٹی ہے جہاں طلباء تنظیموں پر پابندی لگا کر طلبہ و طالبات کیلئے علم کا راستہ بند کردینے کی کوشش گئی ہے۔


متعلقہ خبریں