‘پنجاب میں اب بھی بہتری نہیں آئی تو وزیر اعلیٰ پنجاب گھر جائیں گے‘


اسلام آباد: سینئر صحافی اور تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ اگر پنجاب میں اب بھی کام نہیں ہوا اور تبدیلی نہیں آئی تو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی گھر جائیں گے۔

ہم نیوز کے پروگرام بریکنگ پوائنٹ ود مالک میں سینئر صحافی اور تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان بڑے پرسکون ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں حکومت کہیں بھی نہیں جا رہی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں 2023 میں جانے سے پہلے تین چیزیں کر کے جاؤں گا جس میں پاکستان انویسٹمنٹ حب، چین کی مدد سے زراعت میں انقلاب اور صنعت کی بحالی میری خواہش ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کہتے ہیں ہم پنجاب  میں جو کرنے جا رہے اس سے بڑی تبدیلی آئے گی۔ وزیر اعظم سمجھتے ہیں پنجاب میں جو سیکرٹری تھے وہ عثمان بزدار سے تعاون نہیں کر رہے تھے اور وہ سمجھتے ہیں شریف خاندان واپس آ جائیں گے۔

ارشاد بھٹی نے کہا کہ 1992 میں اگر عمران خان نہ ہوتے تو پاکستان ورلڈکپ نہ جیتتا اور مجھے لگتا ہے وزیر اعظم نے عثمان بزدار کو آخری موقع دیا ہے اور وہ اب پنجاب سے اپنی توجہ نہیں ہٹائیں گے۔

سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی نے  کہا کہ اگر کسی شخص کو اہم عہدے سے ہٹا کر کسی دوسرے اہم عہدے پر لگایا جا رہا ہے تو اس کا مطلب مقصد صرف تبدیلی کرنا ہے لیکن عام طور پر تبدیلی اس وقت کی جاتی ہے جب کام درست نہ ہو رہا ہو۔

انہوں نے کہا کہ اطلاعات یہ ہیں جو سیکرٹریز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے قریب تھے انہیں تبدیل کیا گیا ہے۔ اب سیکرٹریز کا خیال یہ ہے کہ تین ماہ سے زیادہ کسی کو عہدے پر رہنے نہیں دیا جاتا۔ جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ افسران کو تبدیلی سے پہلے ان سے مل کر مسائل سننے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔

تسنیم نورانی نے کہا ہے کہ سرکاری نوکری پکی ہوتی ہے اور سرکاری ملازمین کو نکالنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر افسران اپنی زمہ داریاں پوری نہیں کر رہے تو اس کا مطلب چیف سیکرٹری اپنے افسران سے درست طریقے سے کام نہیں لے پا رہے یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں جو سرکاری افسران پی ٹی آئی کی حمایت کر رہے تھے اور ووٹ بھی دیا تھا لیکن اب وہ بھی پیچھے ہٹ گئے ہیں کیونکہ حقیقت کچھ اور ہی سامنے آ رہی ہے۔

سابق سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ یہ حقیقت ہے سرکاری افسران کا سیاسی گٹھ جوڑ ہوتا ہے اور وہ اپنے تعلقات سیاسی رہنماؤں سے بنا کر رکھتے ہیں۔ سیاستدان اور بیوروکریسی میں فرق ہے اور جب تک یہ فرق برقرار تھا اس وقت تک سب ٹھیک چل رہا تھا۔ وزیر اعظم کہتے ہیں یہ 1960 کی بیوروکریسی ہے اور نہیں طعنے مارے گئے شاید اس وجہ سے بھی وہ اب کام نہیں کر رہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار عمران خان نے کہا کہ وہ سرکاری افسران جو شریف برادران سے اسپتالوں میں رابطے کر رہے تھے وہ اب بھی اہم عہدوں پر ہی فائز ہیں صرف ان کی جگہیں تبدیل ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کے سرکاری افسران میں زیادہ تر چوہدری برادران کے قریب ہیں اور پی ٹی آئی سے بہت دور ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صوبے کو نہیں چلا سکیں گے اور سرکاری افسران چلانا نہیں چاہیں گے جس کی وجہ سے مسائل ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں مشکل حالات سے باہر نکلنے کے اشارے مل رہے ہیں، شاہ محمود قریشی

عمران خان نے کہا کہ حکومت افسران کو بدل بدل کر تبدیلی لا کر دکھا رہے ہیں لیکن کچھ بھی فرق نہیں پڑ رہا جبکہ تمام سرکاری افسران اپنی اپنی جگہوں پر ہی موجود ہیں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی۔ جن افسران کو شہباز شریف اور چوہدری برادران نے اہم عہدوں پر نہیں آنے دیا انہیں عثمان بزدار حکومت بھی کوئی اہم عہدہ نہیں دے رہی۔

انہوں نے کہا کہ سیکرٹری ایک دوسرے کا کام غلط طریقے سے بھی کر لیتے ہیں لیکن عوام کا کام کرتے ہوئے انہیں پریشانی ہوتی ہے۔ وزیر اعظم نے اگر سیاسی تبدیلی بھی صرف قلمدان تبدیل کرنے کی حد تک کی تو کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

میزبان محمد مالک نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب جن لوگوں کو سیکرٹری لگانے میں دلچسپی رکھتے تھے انہیں تو صوبہ بند کر دیا گیا لیکن اب جسے سیکرٹری لگایا گیا ہے کیا اس کی ذمہ داری وزیر اعلیٰ پنجاب لیں گے۔


متعلقہ خبریں