موجودہ حکومت نے طلبا کے مسائل میں اضافہ کیا، رکن طلبا ایکشن کمیٹی


کراچی: رکن طلبا ایکشن کمیٹی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے طلبا کے مسائل کم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کیا اور طلبا کے لیے تعلیم کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا سے گفتگو کرتے ہوئے سماجی کارکن اور استاد ڈاکٹر عمار علی خان نے کہا کہ بہت پسماندہ علاقے کے طلبا نے بھی اب انتہائی محنت کر کے یونیورسٹیوں کو تک پہنچنا شروع کر دیا ہے لیکن جب وہ ڈگری لے کر نکلتے ہیں تو انہیں میرٹ پر نوکریاں نہیں ملتی، جس کی وجہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔

انہوں ںے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے تعلیم کے بجٹ کو مزید کم کر کے طلبا کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا جس کی وجہ سے اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی بنی جس میں مختلف تنظیموں کے طلبا بھی شامل ہیں۔ حکومت طلبا کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھا رہی بلکہ تعلیم کے حصول کو فیسیں بڑھا کر مزید مشکل کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر عمار علی خان نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں طلبا کے سوال اٹھانے پر ہی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں اور انتہائی گھٹن کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے۔ طلبا کی آواز سنی ہی نہیں جاتی۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں بحرانوں کی کمی نہیں ہے اور اس میں کسی قسم کی سنجیدہ بحث نہیں ہوتی۔ طلبا اپنے وجود کو جاننا چاہتے ہیں اور ان کے اٹھائے گئے سوالوں میں جان ہوتی ہے لیکن طلبا کے مسائل میں کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔ سیاسی رہنما طلبا کو صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔

سماجی کارکن نے کہا کہ طلبا کا یہ سیلاب ایک دم سے نہیں امڈ آیا اس پر کافی عرصے سے کام جاری تھا لیکن اب طلبا کی آواز کو دبانے کے لیے ان پر مختلف قسم کے الزامات لگانے شروع کر دیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں تشدد پہلے سے ہی موجود ہے اور طلبا تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی گئی جس کی وجہ سے مسائل تو پہلے سے موجود ہیں لیکن یونین کے ذریعے سے تعلیمی اداروں میں تشدد کا خاتمہ ہو گا اور جمہوریت کی بحالی ہو گی۔

اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی لاہور کی رکن عروج اورنگزیب نے کہا کہ طلبا یکجہتی مارچ گزشتہ سال بھی کیا گیا تھا لیکن اس سال ملک کے کئی شہروں میں یہ مارچ ہوا۔ ہمارا پہلا مطالبہ طلبا کی یونین سازی کی بحالی ہے اور تعلیمی اداروں میں قائم ہونے والی کمیٹیوں میں طلبا کو بھی نمائندگیاں دی جائیں تاکہ مسائل کو درست طریقے سے حل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ مردان میں جاں بحق ہونے والے مشعال خان کے دن کو بھی قومی سطح پر منانے کا مطالبہ کیا ہے۔

عروج اورنگزیب نے کہا کہ موجودہ حکومت بظاہر طلبا سے تعاون اور یونین کی بحالی کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن وہی حکومت آواز اٹھانے والے طلبا پر بغاوت کے مقدمات بھی قائم کر رہی ہے۔ حکومت صرف مسائل حل کرنے کے لیے باتیں کر رہی ہے لیکن جب تک یہ طلبا کے مسائل حل نہیں کرتے اس وقت تک ہم حکومت کی کسی بات کا یقین نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اگر ہمارے مطالبات نہیں مانے گی اور طلبا سے بیٹھ کر بات نہیں کی جائے گی تو پھر ہم حکومت سے دوسرے انداز میں بات کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں حکومت کا کاروباری طبقے کو گیس اور بجلی میں سبسڈی دینے کا اعلان

اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کراچی کی رکن ذہیبہ خزیمہ نے کہا کہ طلبا کو غیر سیاسی بنا کر انہیں تشدد کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ طلبا اپنے مسائل کے حل کے لیے آواز ہی نہیں اٹھا سکتے۔ جب یونین کو بحال کیا جائے گا اور تعلیمی اداروں میں جمہوریت کا نفاذ ہو گا تو بہت سے مسائل ختم ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایشیا سرخ کا نعرہ مزاحمت اور جدوجہد کا نعرہ ہے اس کا تعلق صرف سیاست سے نہیں ہے۔ ہم ظلم اور جبر کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ سندھ حکومت نے ہم سے بات کی ہے اور طلبا یونین کی بحالی کا اعلان بھی کیا ہے۔ سندھ حکومت نے ہم سے ڈرافٹ بھی مانگا ہے اور ہمیں امید ہے کہ اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔

میزبان عامر ضیا نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کا 64 فیصد حصہ 30 سال یا اس سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے، بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کے ایجنڈے میں نوجوانوں کی اہمیت شامل نہیں رہے۔ نوجوانوں کو اپنی آواز حکومت وقت تک پہنچانے میں ناکامی کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طلبا کو ملک گیر احتجاج کی دعوت کسی سیاسی جماعت کی جانب سے نہیں دی گئی تھی۔ ارباب اختیار ہی کو نہیں بلکہ سب کو ہی ان کی بات سننی پڑے گی۔


متعلقہ خبریں