سینٹورس مال تجاوزات کیس: عدالت متعلقہ حکام پر برہم

سربراہ پی آئی اے کی کام جاری رکھنے کی استدعا مسترد، اختیارات بورڈ آف گورنرز کو منتقل

فائل فوٹو


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں سینٹورس مال مالکان کی جانب سے سروس روڈ کو اپنی پارکنگ کے طور پر استعمال کرنے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

سینٹورس مال تجاوزات کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے جج جسٹس گلزار احمد نے کی۔ چیئرمین کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی(سی ڈی اے)، چیئرمین قومی شاہرات اتھارٹی(این ایچ اے) اور میئراسلام آباد عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ روڈز کوپلازہ اپنی پارکنگ کیسے استعمال کر رہے ہیں، شام کو سینٹورس کے چاروں اطراف دیکھے مچھلی بازار لگتا ہے، اسلام آباد میں مچھلی بازار کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کا محکمہ تجاوزات کے ذمہ دارافسران کیخلاف کارروائی عمل میں لارہا ہے اور مذکورہ مال سے ملحقہ پلاٹ سیل کر دیا گیا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیل کی گئی جگہ کو عوام کے استعمال کیلئے بنائیں، یہاں پارکنگ پلاٹس اوردرخت لگائیں، تاکہ عوام کو بھلا ہو لیکن یہ پارکنگ مال کی نہیں ہونی چاہیے۔

جسٹس گلزار نے ہدایت کی کہ آگاہ کیا جائے غیرقانونی تعمیرات اور قبضے کب تک ختم ہونگے؟ کیا اسلام آباد کی زمین کا استعمال ماسٹر پلان کے مطابق ہو رہا ہے؟

جسٹس گلزار نے کہا کہ جہاں دل کرے وہاں جا کر جھنڈا لگا دیں کہ یہ اسلام آباد کی حد ہے، ایک ہلتی ہوئی میٹرو پورے شہر میں چل رہی ہے، رکشے لے کر آئیں لوگوں کو اپنی ثقافت دکھائیں، کوئی ایک رکشہ نظر نہیں آتا۔ 1960 سے اب تک اسلام آباد میں پبلک ٹرانسپورٹ نہیں چل سکی۔

عدالت نے حکم دیا کہ اسلام آباد میں غیرقانونی تعمیرات اور قبضے واگزار کرائے جائیں۔ مس کنڈکٹ کے مرتکب ہونے والے افسران کیخلاف سول اور فوجداری کارروائی کی جائے اور جس نے ادارے کو مالی نقصان پہنچایا اس سے رقم واپس نکلوائی جائے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ میئر اسلام آباد نے گیارہ ہزار کا عملہ ہوتے ہوئے بھی ہتھیار ڈال دیے اور وہ  اپنے عملے کی پوسٹنگ ٹرانسفر بھی نہیں کر سکتے۔ میونسپل کارپوریشن کیساتھ یہی سلوک کرنا تھا تو بنایا ہی کیوں گیا؟

جسٹس گلزار نے متعلقہ حکام کو عدالتی حکم پر عمل درآمد کر کے چھ ہفتوں میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی اور سماعت 45 دن کے لئے ملتوی کردی۔


متعلقہ خبریں