سعودی حکمران اور عراقی خاتون آرکیٹیکٹ کا شاہکار


ریاض: 2009 میں سعودی فرمانروا کی نگرانی میں پٹرولیم کی تحقیق و تدریس کے ایک مرکز کی تعمیر زیرغور تھی۔ سینٹر کی تعمیر کا نقشہ پیش کرنے کے لئے ریاض میں ایک مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔ ہزاروں شرکاء کے درمیان ایک عراقی نژاد برطانوی خاتون بھی موجود تھی۔ خاتون آرکیٹیکٹ (نقشہ ساز) نے ماحول سے متاثرشدہ ایک انتہائی جدید نقشہ پیش کرکے مقابلہ جیت لیا۔

منصوبے کی تکمیل کے بعد اکتوبر 2017 میں سالانہ ڈیزائن ویک کے دوران اسےعوام کے لئے کھولا جانا تھا۔ مگر بدقسمتی سے منصوبے کے نگران اور خاتون آرکیٹیکٹ اس سے قبل ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔

جی ہاں! یہاں بات ہورہی ہے سابق سعودی فرمانروا شاہ عبد اللہ بن عبدالعزیز اور برطانوی آرکیٹیکٹ زھا حدید کی جنہیں منصوبے کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنا نصیب نہیں ہوا۔

شاہ عبد اللہ جنوری 2015 کو 90 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ اُن کی قیادت میں سعودی عرب نےتوانائی کے تحفظ، گلوبل وارمنگ، صاف اور متبادل تیل جیسے جدید مسائل پر توجہ دی۔

ایک سال بعد مارچ 2016 میں زھا حدید بھی انتقال کر گئیں۔ اپنی زندگی میں 950 مختلف منصوبوں کا نقشہ پیش کرنے والی خاتون نے فنون لطیفہ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید تقاضوں پر پورا اُترنے والے منصوبے پیش کئے۔

سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبد العزیز کی قیادت میں سعودی آرامکو آئل کمپنی نے ایک تھنک ٹینک بنایا۔ فکری ادارے کے قیام کا مقصد سعودی عرب میں اقتصادی تبدیلی لانے کی سوچ پر عملدرآمد کرنا تھا۔

کنگ عبداللہ پیٹرولیم اسٹڈیز اور ریسرچ سینٹر کے لئے بھی ماحول دوست ڈیزائن چنا گیا۔ 113 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت والے شہر میں ہزاروں سولر پینلز اور ائیرکنڈیشنز کے بغیر تعمیر ناممکن تھی۔

ایسے میں زھا حدید نے کم کاربن اور کم توانائی کا استعمال کرنے والا،  بُلبلے اور چھتے کی شکل کا منصوبہ پیش کیا۔ اُنہوں نے ڈیزائن بنانے سے قبل اسفنج، پتوں اور رینگنے والے جانوروں کی جلد پر تحقیق کی۔شاہ عبداللہ کی سوچ کے عین مطابق تعمیر میں توانائی محفوظ کرنے کی مختلف تکنیکوں کو بروئے کار لایا گیا۔ سینٹر کی تعمیر میں تپش کو منعکس کرنے والے کنکریٹ پینل اور پتھروں کا بے تحاشا استعمال کیا گیا۔

17 ایکٹر سے ذائد رقبے پر مشتمل تحقیقی کمپلیکس ایک دوسرے سے متصل پانچ عمارتوں پر مشتمل ہے۔ چھ تکونے کمپلیکس میں ریسرچ سینٹر، کمپیوٹر سینٹر، کانفرنس سینٹر، لائبریری اور ایک مسجد ہے۔منصوبے کو 85 سالہ  شاہ عبداللہ کی زندگی میں ہی مکمل کرنا ایک مشکل کام تھا۔ اس غرض سے وسطی لندن میں 50 ماہر تعمیرات، 80 انجینئرز اور سینٹر کے 20 ممبران نے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے انتھک محنت کی۔

آج کنگ عبداللہ پیٹرولیم اسٹڈیز اور ریسرچ سینٹر میں 40 فیصد سے زائد خواتین کام کرتی ہیں۔ ایک آزاد اور غیر منافع بخش ادارے کے طور پر یہ سینٹر توانائی، ماحول اور ٹیکنالوجی پر کام کرتا ہے۔عبداللہ بن عبدالعزیز نے 2009 میں کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی۔ جس کے سر سبز کیمپس میں مردوں کے ہمراہ خواتین  بھی آزادی سے تعلیم حاصل کرتی ہیں۔

ایک طرف عبداللہ بن عبدالعزیز کی جدت پسند سوچ نے سعودی عرب کو نئی سمت دکھائی۔ دوسری جانب تعمیرات کے شعبے میں نام کما کر زھا حدید دنیا بھر کی خواتین کے لئے ایک مثال ہیں۔


متعلقہ خبریں