بھارت: شہریت کا متنازع بل سپریم کورٹ میں چیلنج

کشمیر:پاکستانی وکلا نے بھارتی سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی اجازت طلب کرلی

نئی دہلی: بھارتی شہریت کا متنازع ترمیمی بل بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔

درخواست سیاسی جماعت انڈین یونین مسلم لیگ نے دائر کی جس میں بل کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست کے مطابق بل برابری، بنیادی حقوق اور زندہ رہنے کے حق سے متعلق آئین کی شقوں سے متصادم ہے۔

لوک سبھا کے بعد بھارت کی راجیہ سبھا نے گزشتہ روز بل کی منظوری دی تھی اور بھارتی صدر کے دستخط کے بعد قانون بن جائے گا۔

بل کے متعارف کروائے جانے کے بعد بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں اور ریاستی دارالحکومت گوہاٹی میں کرفیو نافذ ہے۔

آسام کے 10 اضلاع میں انٹرنیٹ بند اور ٹرینوں کی آمدورفت بھی معطل ہے۔

قانون بننے کے بعد پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان کے تارکین وطن، جن میں ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی شامل ہیں، بھارتی شہریت کے حقدارہوجائیں گے۔ اس قانون کا اطلاق ان تمام غیر مسلم تارکین وطن پر ہوگا جنہوں نے 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت میں پناہ رکھی ہے۔

مسلمان تارکین وطن کے خلاف منظور کیے گئے بل کے حق میں 293 جبکہ مخالفت میں ووٹ 82 ووٹ پڑے تھے۔ بل پیش کر نے پر ایوان میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور اپوزیشن ارکان نے وزیر داخلہ امیت شاہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔

حیدر آباد سے رکنِ پارلیمان اسد الدین اویسی نے بل کی مخالفت کی اور اس کی کاپی پھاڑ دی۔ اسد الدین اویسی کا کہنا تھا کہ بل میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر یہ بتایا جائے کہ مسلمانوں کے خلاف اتنی نفرت کیوں ہے؟

درین اثناء امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بل پر تشویش کا اظہار کر تے ہوئے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ اور بے جے پی کے دیگر سرکردہ رہنماؤں پر امریکہ کی طرف سے پابندیاں لگانے کی سفارش کردی ہے۔

بھارتی جنتا پارٹی کی اتحادی جماعت اکالی دل نے بل میں مسلمان تارکین وطن کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔


متعلقہ خبریں