قدغنوں کے شکنجے میں جکڑا ’سیسی‘ کا میڈیا


قاہرہ: آمریت کے دور میں سب سے پہلے جو شعبہ قدغن کی زد میں آتا ہے وہ ہے میڈیا، حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور ان میں سے ذاتی پسند ناپسند پر مبنی پہلو سامنے لا کر عوام کے طرز فکر کو بدلنا آمروں کا بہترین مشغلہ سمجھا جاتا ہے۔

اپنے اسی شوق کو نئی جہتوں پر لے جانے والے آمر کا نام ہے عبدالفتاح السیسی، یہ 2019 میں ایک متنازعہ ریفرنڈم کے ذریعے منتخب ہونے والے مصر کے صدر ہیں جنہوں نے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے لگائی جانے والی پابندیوں میں شام کے حکمران بشار الاسد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

جمال العدل کے ٹیلی ویژن پروڈکشن ہاؤس کا شمار مشرقِ وسطیٰ کی نامور ترین کمپنیوں میں کیا جاتا ہے۔

عوام کی زندگیوں کے حقائق پر مبنی موضوعات پر بنائے گئے جمال العدل کے ڈرامے مثلاً متوسط طبقے کو لگنے والی منشیات کی لت، جنسی زیادتی اور جیل میں خواتین کی زندگی جیسے موضوعات پر بنائے گئے ان کے ڈراموں نے ناصرف مصر بلکہ پوری عرب دنیا میں بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل کی۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب عبدالفتاح السیسی کی جانب سے نافذ کی گئی سنسرشپ کی لہر نے میڈیا کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیا تھا۔

’اب کام کو دیکھنے والی صرف ایک ہی آنکھ تھی جو ایک مخصوص نظر اور اعتقاد رکھتے ہوئے ایک ہی پیمانے پر سب کو ماپتی تھی‘

ریٹائرڈ فوجی عبدالفتاح السیسی گزشتہ تین سالوں سے انٹرٹینمنٹ اور نیوز انڈسٹری کے گرد شکنجہ کس رہے ہیں۔ ایک نئی ریگولیٹری ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کا کام انٹرٹینمنٹ اور نیوز انڈسٹری کی نگرانی کرنا ہے۔

ان دونوں انڈسٹریز کیلئے ہدایت نامہ جاری کیا گیا ہے جس میں سختی سے تاکید کی گئی ہے کہ ڈراموں اور خبروں میں کوئی ایسا منظر نہیں دکھایا جائے گا جس میں صنف مخالف کی طرف رجحان، توہین رسالت اور سیاست کی خبر ہو، ساتھ ہی پولیس اور دوسری اتھارٹیز کا مثبت پہلو دکھایا جائے۔

بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے العدل کا کہنا تھا کہ میرا خیال تھا کہ میں ان ’ممنوعہ موضوعات‘ کو چھیڑے بغیر اپنا کام مکمل کر لوں گا مگر پھر مجھے خبر ملی کہ پولیس نے ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران چھاپہ مارا ہے۔

چھاپہ مارنے کی وجہ فلم میکر کے پاس حکومت کی طرف سے ’اجازت نامہ‘ نہ ہونا تھا، لہٰذا فلم کا کام روک دیا گیا۔
العدل نے بتایا کہ انہوں نے اپنے دو ڈراموں پر کام فوری طور پر روک دیا کیونکہ ان کے پاس ’اجازت نامہ‘ نہیں تھا اور وہ کسی مشکل کا شکار ہونا نہیں چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان حالات میں کام نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ’اب کام کو دیکھنے والی صرف ایک ہی آنکھ تھی جو ایک مخصوص نظر اور اعتقاد رکھتے ہوئے ایک ہی پیمانے پر سب کو ماپتی تھی۔‘


متعلقہ خبریں