سزائے موت کے متعلق صدر کے اختیارات سپریم کورٹ میں چیلنج


اسلام آباد: صدر مملکت سے سزائے موت کی معافی، معطلی یا کمی کا اختیار فوری واپس لیے جانے کی آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر دی گئی ہے۔

درخواست ایڈووکیٹ محمود اختر نقوی نے دائر کی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 45  قرآن و سنت سے متصادم ہے لہٰذا صدر مملکت سے سزائے موت کی معافی، معطلی یا کمی کا اختیار فوری طور پر واپس لیا جائے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 227 کے تحت صدر سزائے موت ختم نہیں کر سکتا، سزائے موت کی معافی، معطلی یا کمی کا اختیار صرف مقتول کے ورثا کے پاس ہوتا ہے اس لیے صدر کا سزا ختم یا معاف کرنا غیر آئینی و غیر شرعی ہے۔

درخواست میں وفاق، وزارت قانون اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔

خیال رہے کہ چند ماہ قبل ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور انٹرنیشنل فاؤنڈیشن آف ہیومن رائٹس کی جانب سے  ایک مشترکہ رپورٹ تیار کی گئی تھی۔

رپورٹ میں پاکستان میں موت کی سزا پانے والے قیدیوں کی حالت زار اور جیلوں میں ناقص انتظامات کا ذکر کیا گیا تھا، جس کے مطابق پاکستان کا شمار ان چند ممالک  میں کیا جاتا ہے جہاں موت کی سزا پر سب سے زیادہ عمل درآمد کیا جاتا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فور ہیومن رائٹس کی تیار کردہ اس مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت ملک میں ایسے 32 قوانین ہیں جن کی خلاف ورزی پر موت کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

قیام پاکستان کے وقت صرف دو جرائم ایسے تھے جن میں موت کی سزا تجویز کی گئی تھی جن میں قتل کے علاوہ دہشت گردی بھی شامل تھی۔


متعلقہ خبریں