مشرف سنگین غداری کیس، کب کیا ہوا؟


اسلام آباد: خصوصی عدالت نے آج سابق صدر پرویزمشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنا دیا ہے۔

جسٹس شاہد کریم، جسٹس نذر اکبر اور جسٹس وقاراحمد سیٹھ  پرمشتمل خصوصی بینچ نے معاملے کی سماعت کی اور دو ایک کی شرح سے فیصلہ دیا گیا۔

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس، کب کیا ہوا اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف  نے 26 جون 2013 کو وزارت داخلہ کو اس معاملے کی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) انکوائری کے لیے خط لکھا جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ وزارت داخلہ پرویز مشرف سنگین غداری کے الزامات کی تحقیقات کے لئے ایف آئی اے کی خصوصی ٹیم تشکیل دے۔

وزیراعظم کے خط کی بنیاد پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے نے ٹیم تشکیل دی جس نے انکوائری کر کے وزارت داخلہ کو اپنی رپورٹ 16 نومبر کو جمع کرائی۔

انکوائری رپورٹ کے تناظر میں لاء ڈویژن کی مشاورت سے 13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی، شکایت میں پرویز مشرف کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا تھا، خصوصی عدالت نے 24 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کو بطور ملزم طلب کیا اور 31 مارچ 2014 کو سابق صدر پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔

پرویز مشرف کی جانب سے صحت جرم کے انکار پر ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کیا گیا اور 18 ستمبر 2014 کو استغاثہ نے پرویز مشرف کے خلاف شہادتیں مکمل کیں اور اس کے بعد سابق صدر کو بطور ملزم بیان ریکارڈ کرانے کا کہا گیا۔

پرویز مشرف کا بطور ملزم بیان قلم بند نہ کیا جا سکا تھا، انہیں مسلسل عدم حاضری پر پہلے مفرور اور پھر اشتہاری قرار دیا گیا۔

تحریک انصاف حکومت نے 23 اکتوبر 2019 کو پراسیکیوشن ٹیم کو ڈی نوٹیفائی کر دیا، استغاثہ کی ٹیم کی تعیناتی فوجی دور حکومت میں کی گئی تھی۔

ڈی نوٹیفائی پراسیکیوشن ٹیم نے 24 نومبر 2019 کو خصوصی عدالت میں تحریری دلائل جمع کرائے اور خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے 28 نومبر کی تاریخ مقرر کی۔

اس کے بعد وزارت داخلہ اور پرویز مشرف کے وکیل نے فیصلہ روکنے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی اور 27 نومبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا۔

آج 17 دسمبر 2019 کو پرویز مشرف سنگین غداری کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے جس میں سابق صدر سزائے کے مستحق ٹھہرائے گئے ہیں۔


متعلقہ خبریں