بچوں کے ساتھ زیادتی وقتل: ملزم کو تین مرتبہ سزائے موت


لاہور: انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے قصور کے علاقے چونیاں مین کمسن بچوں کے ساتھ  زیادتی و قتل کرنے والے ملزم سہیل شہزاد کو تین مرتبہ سزائے موت سنا دی۔

انسداددہشت گردی عدالت کے جج نے 2 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ سہیل شہزاد پر لگے الزامات ثابت ہوئے ہیں۔ سہیل شہزاد کو پھانسی کے پھندے پر اس وقت تک لٹکایا جائے جب تک موت واقع نہیں ہوتی۔

تحریری فیصلہ میں کہا ہے کہ سہیل شہزاد کو دفعہ 367 اے کے تحت ایک مرتبہ سزائے موت اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔ سہیل شہزاد کو قتل کی دفعات کے تحت سزائے موت، 2 لاکھ جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔

تحریری فیصلہ کے مطابق سہیل شہزاد کو انسداددہشت گردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے کے تحت سزائے موت اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا سنائے جاتی ہے۔ سیکشن 377 کے تحت سہیل شہزاد کو عمر قید اور 10 لاکھ کا جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج محمد اقبال نے کوٹ لکھپت جیل میں ملزم کے خلاف فیصلہ سنایا۔ انسداددہشت گردی عدالت نے مسلسل 7 دن کیس کی 8 آٹھ گھنٹے سماعت کی۔ عدالت نے 3 دنوں میں 23 گواہان کے بیانات قلمبند کیے۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر عبدالروف وٹو نے عدالت کو بتایا کہ ملزم سہیل شہزاد کا 342 کا بیان چھوتے روز قلمبند کیا گیا۔ ملزم سہیل شہزاد نے 342 کے حتمی بیان میں الزامات کو جھوٹا قرار دے دیا تھا۔

ڈپٹی پراسکیوٹر  نے نسداد دہشت عدالت کو بتایا کہ ملزم سہیل شہزاد تمام واقعات میں اکیلا تھا۔ ملزم بچوں کو زیادتی اور قتل کرنے کے بعد گڑھے میں پھینک دیتا تھا۔ بچوں کے جسد خاکی کو آوارہ جانوروں نے کھا لیا تھا۔

پراسکیوشن کے مطابق حیوانیت جاگنے پر جو بچہ ملزم کے سامنے آتا تھا اسے نشانہ بناتا تھا۔ ملزم سزا کے خوف سے بچوں کو قتل کرتا رہا۔ ملزم سہیل پہلے بھی ڈیڑھ سال جیل کاٹ چکا ہے۔

پراسکیوٹر انسدادِ دہشت گردی عدالت کے مطابق پولیس نے بچوں کے جسم کے اعضا کی 64 ہڈیاں برآمد کیں۔ ملزم کا ڈی این اے جھاڑی سے ملنے والے کپڑے سے میچ کر گیا تھا۔

ڈیپٹی پراسکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ مقتول فیضان علی کے ناخنوں سے ملنے والے مواد سے بھی ملزم کا ڈی این میچ ہوا۔ فرانزک سائنس لیباریٹری کیجانب کے 1,649 افراد کے سیمپل کی جانچ پڑتال کی گئی۔

عبدالروف وٹو نے عدالت کو بتایا کہ 1,471 نمبر ملزم کا ڈین این اے فیضان علی سے میچ ہوا. شلوار سے ملنے والے مواد سے ملزم کا ڈی این اے میچ ہوا. ملزم کا ڈی این اے یکم اکتوبر کو میچ ہوا اور اسی دن اسے گرفتار کرلیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: چار کمسن بچوں سے زیادتی و قتل کا معاملہ: ملزم کا 342 کا حتمی بیان قلمبند

ڈیپٹی پراسکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ 8 اکتوبر کو ملزم  سے جوتا برآمد کروایا جو میچ ہو گیا۔ جیسے فنگر پرنٹ  یکتا ہوتا ہے ویسے شو پرنٹ بھی یونیک ہوتا۔

ڈیپٹی پراسکیوٹر عبدالرؤف وٹو نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نے پہلے اقرر جرم کیا اور ٹرائل کے دوران انکار کردیا۔ گواہان میں فیضان علی کے والد محمد رمضان نے اپنا بیان قلمبند کروایا۔ جائے حادثہ سے مٹی اٹھانے والے ٹرالی ٹریکٹر کے مالک محمد عارف نے بھی بیان قلمبند کروایا۔

کیس میں فرانزک سانس لیبارٹری کے قاضی لیئیق اور محمد جواد نے اپنا بیان قلمبند کروایا۔ تفتیشی افسر قدوس بیگ، محرر محمد اکرم سمیت 23 افرد نے بیانات قلمبند کروائے۔

پرسکیوشن کے مطابق ملزم نے اقرار جرم کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے، معاف کردیں۔ دوران تفتیش ملزم نے بتایا کہ وہ موٹر سائکل رکشے میں چیز دلانے کا لالچ دے کر بچوں کو لےکر جاتا۔

پراسکیوٹر عبدالروف وٹو کے مطابق پولیس نے استعمال ہونے والا موٹر سائیکل رکشہ بھی برآمد کیا۔

ڈپٹی پراسکیوٹر عبدالروف وٹو کے مطابق ڈاکٹرز نے بچون سے بدفعلی کے بعد گلہ گھونٹ کر مارنےطکی تصدیق کردی۔ سفاک ملزم 8  سے 12  سال کی عمر کے بچوں کا انتخاب کرتا اور اپنے حوس کا نشانہ بناتا۔

پراسکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نے 4  بچون  کے ساتھ بدفعلی کے بعد قتل کیا، جن میں سے 2 کا ڈی این اے میچ ہوا۔


متعلقہ خبریں