سنگین غداری کیس: ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزائے موت کا حکم

اگر مشرف سزا سے پہلے وفات پا جائیں تو ان کی لاش 3 دن ڈی چوک پر لٹکائی جائے، فیصلہ



اسلام آباد: خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو
ہر الزام پرعلیحدہ علیحدہ سزائے موت کا حکم دیا ہے۔

خصوصی عدالت کا فیصلہ 167 صفحات پر مشتمل ہے۔ خصوصی عدالت کے رکن جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے فیصلے سے اتفاق کیا جب کہ بینچ کے رکن جسٹس نذر اکبر نے فیصلے پر اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق پرویزمشرف نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی لگائی اور سپریم کورٹ کے 15 ججوں کو برطرف کیا گیا۔

خصوصی عدالت نے لکھا کہ صوبائی ہائیکورٹس کے 56 ججز کو بھی برطرف کیا گیا، اس وقت کے چیف جسٹس کو گھر پر نظر بند کیا گیا۔

فیصلے کے مطابق جون 2013 کو اس وقت کے وزیراعظم نے ایف آئی اے کو سنگین غداری کی تحقیقات کی ہدایت کی۔  ایف آئی اے کی ٹیم نے 16 نومبر 2013 کو اپنی رپورٹ جمع کرائی اور دسمبر 2013 کو عدالت میں درخواست دائر کی گئی۔

تحریری فیصلے میں درج ہے کہ جمع کرائے گئے دستاویزات  سے واضح ہے کہ ملزم نے جرم کیا، ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتے ہیں، ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جاتی ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشرف کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔

فیصلے میں درج ہے کہ پرویز مشرف کو مفرور کرانے میں ملوث افراد کو قانون میں دائرے میں لایا جائے اور ان کے مجرمانہ اقدام کی تفتیش کی جائے۔

تین رکنی بینچ نے لکھا آئین پاکستان آرمی چیف کو اس قسم کا کوئی اختیار نہیں دیتا کہ وہ غیرآئینی اقدام اٹھائے، ایک لمحے کیلئے بھی آئین کو معطل کرنا آئین کو اٹھا کر باہر پھینکنے کے مترادف ہے، ملک میں ایمرجنسی لگا کر آئین کو معطل نہیں کیا جاسکتا۔

مختصر فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا اور ان پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہو چکا ہے۔ جس کی پاداش میں انہیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔

جسٹس نذر اکبر کا اختلاف

سنگین غداری کیس سننے والے تین رکنی بینچ کے رکن جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ استغاثہ سنگین غداری کا جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

انہوں نے لکھا کہ نومبر 2007 کا اقدام غیر قانونی ہوسکتا ہے لیکن سنگین غداری کا جرم ثابت نہیں ہوسکتا۔ پرویز مشرف ججز نظر بندی کیس میں پہلے ہی ایک کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔
میرے ساتھ ججز نے سنگین غداری کی تشریح آکسفورڈ ڈکشنری کی اصتلاح کے مطابق کی۔ جب تک اس لفظ کی تشریح نہ ہو عدالت کو منصفانہ فیصلہ جاری نہیں کر سکتی۔

جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ سنگین غداری کے لفظ کی آئین میں کوئی تشریح نہیں۔

خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ نے سابق صدر کیخلاف 17 دسمبر 2019 کو دو ایک کی اکثریت سے مختصر فیصلہ سنایا تھا۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی تھی۔ بینچ میں جسٹس شاہد کریم اور جسٹس نذر اکبر بھی شامل تھے۔

سابق آرمی چیف نے فیصلے کو مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا کہ  قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے  فرد واحد کو نشانا بنایا گیا۔ انہوں نے قانونی ماہرین کے ساتھ مشاورت کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پرویز مشرف نے اپنے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے کو مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے فیصلے کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، کیس میں قانون کی بالادستی کا خیال نہیں رکھا گیا۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ملزم اور وکیل کو دفاع کی اجازت نہیں دی گئی اور تحقیقاتی کمیشن کے سامنے بیان دینے کی پیش کش بھی ٹھکرادی گئی۔

سنگین غداری کیس کی آخری سماعت میں حکومت کی طرف سے پراسیکیوٹر علی ضیاء باجوہ جب کہ سابق صدر پرویزمشرف کی طرف سے سلمان صفدر اور رضا بشیر بطور وکیل عدالت میں پیش ہوئے تھے، حکومتی وکیل نے سنگین غداری کیس میں  شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانے کی استدعا کی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔


متعلقہ خبریں