موجودہ حکومت پی ٹی آئی اور اداروں کیلئے بری ثابت ہوئی، سابق سیکرٹری دفاع


کراچی: سابق سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی نے کہا کہ موجودہ حکومت پی ٹی آئی اور سیکیورٹی اداروں دونوں کے لیے ہی بری ثابت ہو رہی ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی نے کہا کہ سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کا ایک بڑا طبقہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ عدم اطمینان صرف فوج کی جانب سے نہیں ہے بلکہ سابق اور موجودہ دونوں حکمرانوں کی طرف سے ہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھنا چاہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر خصوصی عدالت بنائی گئی اس وقت سپریم کورٹ کا جج کون تھا اور ملک کا حکمران کون تھا ؟ یہ فیصلہ ذاتی عناد لگتا ہے۔ ایم کیو ایم قائد جو ملک کے خلاف بیان دیتا رہا جو واقعی غدار ہے لیکن اس کے خلاف تو کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

سابق سیکرٹری دفاع نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ آنے سے قبل ہی بتایا جا رہا تھا کہ کیا فیصلہ آ رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ جو بڑا عجیب ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی معاملات میں فوج سب سے زیادہ منظم ادارہ ہے اور وہ آئین کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے۔ پاک فوج نے فیصلے کے خلاف اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا ہے جو ان کا حق بنتا ہے تاہم قانون کے مطابق ہی سارا معاملہ آگے بڑھایا جائے گا۔

نعیم لودھی نے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں بندوق کا غلط استعمال نہ ہو تو آپ کو یہ بھی یقین دہانی کرانی ہو گی کہ عدلیہ کا بھی غلط استعمال نہ ہو اور میڈیا سمیت کسی کا بھی غلط استعمال نہیں ہونا چاہے۔ اس ملک میں چیلنجز بہت زیادہ ہیں انہیں حل کرنے کی کوشش کی جائے اور سیکیورٹی اداروں کو نہ چھیڑا جائے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت پی ٹی آئی اور سیکیورٹی اداروں کے لیے بہت بری ثابت ہو رہی ہے۔ فوج کو اس تاثر سے بالکل الگ کرنا چاہے کہ وہ کسی پارٹی کا ساتھ دے رہے ہیں اور سیاسی جماعتوں کو بھی اب کسی سہارے کی طرف نہیں دیکھنا چاہے تب ہی یہ ملک بہتر حالات کی جانب بڑھ سکے گا۔

تجزیہ کار اور سینئر صحافی سلیم بخاری نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف جب مقدمہ درج کیا جا رہا تھا تو اس وقت کہا جا رہا تھا کہ کیا کوئی سربراہ پاک فوج سزا دے سکتا ہے تاہم متنازعہ حالات میں مقدمہ درج ہوا اور انہیں حالات میں ہی اسے آگے بھی بڑھایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا سیاسی نظام جب بھی متاثر ہوا تو فوج کی جانب سے مداخلت کی گئی اور ہر دفعہ ہی عوام نے تالیاں بجا کر ان کا استقبال کیا۔ پرویز مشرف نے بھی انتہائی خراب سیاسی حالات میں ملک کو سنبھالا تھا۔

تجزیہ کار نے کہا کہ پرویز مشرف کے فیصلے پر ہمارا دشمن ملک بھارت بہت خوش ہوا ہو گا کیونکہ جنرل (ر) ضیا الحق اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں بھارت کو عالمی سطح پر شرمندگی اٹھانا پڑی تھی جب وہ پاکستان کا سامنا کرنے سے ڈر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاک فوج اب بالکل بھی مداخلت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور ان کے خلاف جاری بحث اب ختم بھی ہو جانی چاہیے۔ پرویز مشرف کے خلاف معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا یہ ابھی اپیل میں جائے گا جبکہ موجودہ ججز جلد ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔

سلیم بخاری نے کہا کہ اگر سیاسی حکمران اپنا قبلہ درست نہیں کریں گے تو پھر مداخلت کے خطرات منڈلاتے رہیں گے۔ اداروں کے درمیان جب بھی تصادم ہوا ہے اس کی ذمہ دار اس وقت کی حکومت ہی رہی ہے۔ سیکیورٹی ادارے اگر آنکھیں بند کر کے جمہوریت کی سپورٹ کریں گے تو پھر ایسے ہی نتائج برآمد ہوں گے جو موجودہ حکومت کے 14 ماہ میں نظر آ رہے ہیں جو آج اپنے دور حکمرانی کے آغاز سے بھی بہت پیچھے نظر آ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک حکومتی نمائندے بیان دینے سے آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کریں تو پھر یہ نظام چلنا مشکل ہو جائے گا۔

تجزیہ کار نذیر لغاری نے کہا کہ عدالتی نظام سے لوگوں کو اب نہیں بلکہ کافی عرصے سے ہی شکایت ہے۔ اب جو بھی ہوا ہے وہ انصاف کے معروف طریقوں سے ہٹ کر ہوا ہے۔ پرویز مشرف کی ایمرجنسی نافذ ہونے کے بعد عدالت نے ایک فیصلہ لکھا تھا جس پر پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔ عدالتی نظام کی جانب سے کئی بار زیادتیاں کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جن حالات میں پرویز مشرف کی ایمرجنسی لگی تھی ہمیں وہ حالات بھی دیکھنے چاہیے تھے کیونکہ پاکستان معاملات میں بری طرح سے الجھ گیا تھا۔

نذیر لغاری نے کہا کہ مشرف کی ایمرجنسی کے بعد جن لوگوں نے حلف لیا اس میں پورا لارجر بینچ شامل تھا جس نے پرویز مشرف کو نہ صرف تین سال کا اختیار دیا بلکہ آئین میں تبدیلی کا بھی اختیار دیا گیا تھا پہلے تو انہیں پکڑنا چاہے جبکہ مشرف کا ساتھ دینے والے دیگر سیاسی رہنماؤں کو بھی پکڑنا چاہیے تھا جنہوں نے پی سی او کو مانا اور 17 ویں ترمیم کو قبول کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں عوام کے پاس جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں، سراج الحق

انہوں نے کہا کہ عوام کے بارے میں تو کوئی سوچتا ہی نہیں ہے کہ لوگ کس طرح سے زندگی گزار رہے ہیں۔ اداروں کے اندر ہم آہنگی ہونی چاہے اور ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ اس ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اب مل کر بیٹھنا چاہیے۔

سینئر صحافی نے کہا کہ سیاستدانوں نے شفاف نظام نہیں دیا، عدلیہ نے شفاف انصاف نہیں دیا جبکہ سیکیورٹی اداروں نے بھی کئی جگہوں پر غلط اقدامات اٹھائے ہیں۔ موجودہ احتساب ایک مذاق اور ڈھونگ ہے۔ یہاں تو کچھ لوگوں کو پکڑا جا رہا ہے اور کچھ کو چھوڑا جا رہا ہے۔ فوج کے بارے میں یہ تاثر نہیں ہونا چاہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہے۔

عامر ضیا نے کہا کہ ترجمان پاک فوج نے سابق آرمی چیف کو دی جانے والی سزا پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور جوانوں کی صفوں میں پائے جانے والے کرب سے آگاہ کیا اور امید ظاہر کی کہ سابق آرمی چیف کو انصاف ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف کی چند جماعتیں اور لبرل حلقے پرویز مشرف کی سزا کو درست قرار دے رہے ہیں۔ اگر معیشت کو بحال کرنا ہے تو اس کی ایک ہی شرط ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو اور اسی صورت میں ہم بھارت کا بھی مقابلہ کرسکیں گے۔


متعلقہ خبریں