استغاثہ سنگین غداری کا جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا ، جسٹس نذر اکبر

قرآن کریم کی بیحرمتی کے گھناؤنے جرم میں ملوث ملزم کے وارنٹ گرفتاری جاری

فائل فوٹو


اسلام آباد: سنگین غداری کیس سننے والے تین رکنی بینچ کے رکن جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ استغاثہ سنگین غداری کا جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے جس سے جسٹس نذر اکبر نے اختلاف کیا ہے۔

42 صفحات اور 32 پیراگراف پر مشتمل اپنے فیصلے میں کہا کہ نومبر 2007 کا اقدام غیر قانونی ہوسکتا ہے لیکن سنگین غداری کا جرم ثابت نہیں ہوسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ سنگین غداری کے لفظ کی آئین میں کوئی تشریح نہیں، جب تک اس لفظ کی تشریح نہ ہو عدالت منصفانہ فیصلہ جاری نہیں کر سکتی۔

جسٹس نذر اکبر نے لکھا ہے کہ پرویز مشرف ججز نظر بندی کیس میں پہلے ہی ایک کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔

تین رکنی بینچ کے رکن جسٹس نذراکبر نے44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں لکھا کہ مختلف عومل اس کیس میں شامل تھے۔

اختلافی نوٹ میں درج ہے کہ پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی نافذ کرنے کے وقت ان کے ساتھ موجود دیگر افراد کو اس کیس میں شامل نہیں کیا گیا۔

جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ ججز بحالی کیسی ہوئی، کس کا ٹیلی فون اعتزاز احسن کو آیا، ججز بحالی کا اعلان ہونے کے  پانچ دن بعد انہیں بحال کیا گیا اور ایسے بہت سے سوالات کیس میں موجود ہیں۔

اختلافی نوٹ کے مطابق اس وقت پارلیمنٹ نے17ویں ترمیم کے ذریعےمجرم کو سہولت دی، استغاثہ نےسنگین غداری کے مطلب کا انحصار آکسفورڈ ڈکشنری پر کیا ہے۔

بینچ کے رکن نے لکھا کہ پارلیمنٹ نے اکتوبر 99 کی ایمرجنسی کی توثیق نظریہ ضرورت کے تحت کی تاہم کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ وہ ایمرجنسی کےنفاذ کیخلاف پارلیمنٹ میں تحریک لاسکے۔

انہوں نے لکھا کہ بہت سارے پارلیمنٹیرین وکلا تھے وہ وکلاتحریک کا حصہ تھے، قومی اسمبلی نے7 نومبر2007 کو اپنی قرارداد منظور کرکے ایمرجنسی کے نفاذ کی توثیق کی۔

ایک بھی رکن پارلیمنٹ نےپارلیمنٹ میں آواز نہیں اٹھائی، قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی میں ایمرجنسی کے نفاذ پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا، قومی یا صوبائی اسمبلی میں ایمرجنسی کے نفاذ پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔

جسٹس نذراکبر نے لکھا کہ اس عمل کا واحد ہدف 3 نومبر 2007 کا اقدام تھا، پارلیمنٹ نے پہلے خاموشی اختیارکرکے پھرآرٹیکل6 میں ترمیم کرکےعدلیہ کودھوکا دیا۔

اختلافی نوٹ میں لکھا گیا کہ پراسیکیوٹر تین سویلین کو سنگین غداری کے مقدمہ میں شامل کرانا چاہتی تھی، پراسیکیوٹر نے شکایت دائر کرنے والے سابق سیکرٹری داخلہ سے مختلف موقف اپنایا، پراسیکیوٹر نے کسی نئی انکوائری، تحقیققات کے بغیر تین سویلین کا نام شامل کرنے کا کہا۔

انہوں نے لکھا کہ سابق سیکرٹری داخلہ بطور گواہ پیش ہوئے، سابق سیکرٹری داخلہ کے مطابق انکوائری میں پرویز مشرف کے سوا کسی کے خلاف مواد نہیں ملا۔

پراسیکیوٹر تین سویلین کو سنگین غداری کے مقدمہ میں شامل کرانا چاہتی تھی، پراسیکیوٹر نے کسی نئی انکوائری ،تحقیققات کے بغیر تین سویلین کا نام شامل کرنے کا کہا۔

اختلافی نوٹ کے مطابق پراسیکیوٹر نے شکایت دائر کرنے والے سابق سیکرٹری داخلہ سے مختلف موقف اپنایا، سابق سیکرٹری داخلہ بطور گواہ پیش ہوئے، سابق سیکرٹری داخلہ کے مطابق انکوائری میں پرویز مشرف کے سوا کسی کے خلاف مواد نہیں ملا۔

جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ تین سویلین کو ٹرائل میں شامل کرانا مقدمہ کا از سر نو ٹرائل شروع کرانے کے مترادف ہے، اس کہانی کے پس منظر میں ملزم پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا نہیں دی جا سکتی۔

وزارت داخلہ سنگین غداری کے مماملہ پر صاف شفاف انکوائری کرنے میں ناکام ہو ئی، پراسکیوشن پرویز مشرف کے خلاف جان بوجھ کے سنگین غداری کا مقدمہ بنانے میں ناکام ہو ئی۔

وزارت داخلہ ایمرجنسی کے سہولت کاروں کے خلاف انکوائری میں ناکام ہو ئی، تین نومبر کا اقدام بد نیتی،غیر قانونی غیر آئینی ہوسکتا ہے، سپریم کورٹ بھی تین نومبر کو اقدام کو غیر آئینی کہہ چکی ہے،، مواد کے معیار اور ثبوت سے سنگین غداری ثابت نہیں ہوتی۔

انہوں نے لکھا کہ ججز کو محصور کرنے پر پرویز مشرف کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ کا سامنا ہے، عدلیہ کے ٹرائل کے دوران مارچ 2007 سے مارچ 2009 تک پارلیمنٹ اور ایگزیکٹیو اتھارٹی آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔

اس پریڈ کے دوران عدلیہ کے داد رسی کیلئے کوئی فورم اور قانون موجود نہ تھا، مارچ 2009 میں عدلیہ اچانک بحال ہوئی، سینئر وکیل اعتزاز احسن کو کس نے فون کرکے لانگ مارچ روکنے کا کہا اس کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی۔ اس وقت کے اپوزیشن لیڈر نواز شریف اعتزاز احسن کیساتھ سیٹ پر بیٹھے تھے۔

جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ مجھے یہ یقین ہے کال کرنے والی شخیت صدر پاکستان یا وزیر اعثظم پاکستان نہیں تھے۔


متعلقہ خبریں