جسٹس وقار سیٹھ جج کے منصب کیلئے موزوں نہیں ہیں، تجزیہ کار


کراچی: تجزیہ کار نے کہا کہ جسٹس وقار سیٹھ کا ذہنی توازن درست معلوم نہیں ہوتا وہ اس عہدے کے لیے ناموزوں ہیں جبکہ پرویز مشرف کے خلاف کسی صورت غداری کا مقدمہ نہیں بنتا۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے ماہر قانون اور سابق جج خواجہ نوید نے کہا کہ جسٹس وقار سیٹھ نے قانون پڑھا ہوتا یا اپنے فیصلے ہی پڑھے ہوتے تو وہ اس طرح کے ریمارکس نہیں دیتے۔ زندہ یا مردہ انسان کا وقار اپنی جگہ ہے۔ جسٹس وقار سیٹھ کا میڈیکل ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس وقار کے نوٹ کے بعد پرویز مشرف کی عزت لوگوں کے دلوں میں مزید بڑھ گئی ہے۔ کوئی قانون اور آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوئی تھی بس ایمرجنسی لگی تھی ، ایک پی سی او بنا تھا اور ججز سمیت سب نے ہی اس پی سی او پر حلف اٹھایا تھا۔

خواجہ نوید نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو چاہے کہ جیسے ہی حکومت کی طرف سے رابطہ کیا جائے تو جسٹس وقار سیٹھ کو فوری طور پر کام کرنے سے روک دیا جائے۔ لگتا ہے عدالت کو بہت جلدی تھی اور انہوں نے فوری طور پر پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ دے دیا حالانکہ قانون طور پر بہت ساری چیزیں ہونا باقی تھیں۔

سابق وفاقی وزیر اطلاعات جاوید جبار پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ دینے والے جج جسٹس وقار سیٹھ کا ذہنی توازن درست نہیں لگتا۔ انہوں نے انسانیت کے ساتھ فحاشی کی ہے۔ اس طرح کے ریمارکس سے پورے فیصلے پر ہی سوال اٹھتے ہیں کہ کیا یہ درست فیصلہ ہے ؟

انہوں نے کہا کہ کوئی غداری کا معاملہ ہو تو آرمی خود اپنے جوانوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے لیکن یہاں پرویز مشرف کے خلاف غداری کا لفظ استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ آئین کے ساتھ کھیلنا ایک بڑا سنگین جرم ہے لیکن اس کو الگ حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔

جاوید جبار نے کہا کہ باقاعدہ ایک مرحلے کے بعد جج بنتے ہیں لیکن ہو سکتا ہے باوجود اس تمام مراحل کے ایسے جج بن جائیں اور دوران کام ایسا بھی ہو سکتا ہے کسی فرد کی ذہنی کیفیت متاثر ہو جائے۔

انہوں نے کہا کہ میں پرویز مشرف کے کئی فیصلوں کے بہت سخت خلاف تھا اور انہیں بہت سارے فیصلوں سے روکتا بھی تھا لیکن اس کے باوجود میں یہ کہوں گا کہ ان پر غداری کا الزام نہیں لگنا چاہیے تھا۔ پرویز مشرف نے حکومت سنبھالنے کے بعد پہلے سال جو کام کیے وہ بہت اچھے تھے اور وہ بہت زیادہ مخلص پاکستانی ہیں۔

تجزیہ کار اکرام سہگل نے کہا کہ مسلمان کا عقیدہ ہے کہ وہ دشمن کی لاش کی بھی بے حرمتی نہیں کرتا لیکن جج نے یہاں جو لاش کی بے حرمتی پر ریمارکس دیے وہ ناقابل یقین ہیں۔ انسانیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پرویز مشرف کو لٹکانے کے حوالے سے دیا گیا فیصلہ کسی صورت درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا بلکہ وزیر اعظم سمیت پوری کابینہ ہی ان کے ہمراہ تھی اور کسی نے سابق صدر پرویز مشرف کو کسی مرحلے پر نہیں روکا تھا۔ قانون کے مطابق گواہوں کو اور ملزم کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے تھا لیکن اس سے ہٹ کر عوامی رائے پر ایک فیصلہ دے دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں حکومت نے جسٹس وقار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا اعلان کر دیا

اکرام سہگل نے کہا کہ سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہیے اس فیصلے سے فوج کا وقار بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ ہم نے تو فوج میں بھی کبھی ایسے ریمارکس نہیں سنے۔

انہوں ںے کہا کہ عوام اور ادارہ پرویز مشرف کے ساتھ کھڑا ہے اور عوام کی جانب سے بھی سخت ردعمل آیا ہے تاہم لگتا ہے فوج کے خلاف سازش کی جا رہی ہے پہلے آرمی چیف کی مدت ملازمت کو ایشو بنایا گیا اور اس کے بعد سابق آرمی چیف کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔

تجزیہ کار نے کہا کہ حزب اختلاف کا تو اس وقت صرف ایک ہی ایجنڈا ہے اور وہ اپنے آپ کو بدعنوانی کے معاملات سے بچانا چاہتے ہیں وہ حکومت کے خلاف کوئی بیان دینے سے گریز نہیں کریں گے۔

سابق سیکرٹری دفاع  لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف آنے والے فیصلے نے عدلیہ کا اپنا وقار ہی مجروع کیا ہے۔ فیصلے میں جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ کسی صورت مناسب نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فوج ہتھیاروں سے زیادہ جذبے سے لڑتی ہے اور ہماری فوج کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے اپنے جذبے اور حب الوطنی کی وجہ سے اپنے سے زیادہ طاقتور دشمن سے نبرد آزما ہے۔


متعلقہ خبریں