خیبر پختونخوا: 1000 میں سے 54 بچے پہلے سال موت کا شکار ہوجاتے ہیں

انسان پیدائشی طور پر الفاظ دیکھ سکتا ہے، نئی ریسرچ سامنے آ گئی

پشاور: خیبرپختونخوا میں پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں میں سے 5.4 فیصد پیدائش کے پہلے سال ہی انتقال کرجاتے ہیں۔

محکمہ صحت کے مطابق صوبائی دارالحکومت پشاور میں گزشتہ سال کے دوران 485 نومولود بچوں کی اموات ہوئیں جب کہ 2016 میں یہ تعداد 436 تھی۔

پشاور کے سرکاری طبی مرکز لیڈی ریڈنگ، خیبرٹیچنگ، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اور چلڈرن اسپتال شہرکے چار بڑے اسپتالوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان اسپتالوں میں بچوں کے نرسری وارڈز موجود ہونے کے باوجود متعلقہ سہولیات کاشدید فقدان ہے۔

لیڈی ریڈنگ اسپتال (ایل آر ایچ) میں بچوں کے نرسری وارڈ میں محض 35 بستر ہیں۔ اسپتال میں موجود 15 انکیوبیٹرز میں سے آٹھ  ناکارہ ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال میں اکثر ایک انکیوبیٹر میں دو یا تین بچوں کو رکھا جاتا ہے۔

ایل آر ایچ کے نام سے معروف اسپتال میں روازنہ تقریباً 50 بچوں کی ولادت ہوتی ہے۔ آدھے سے زیادہ بچوں کو فوری انکیوبیٹر کی ضرورت پیش آتی ہے۔

دوسری جانب اسپتال میں بچوں کے لئے وینٹیلیٹرز مخصوص نہیں کئے گئے ہیں۔ ہنگامی صورتحال میں عام وینٹیلٹرز کو استعمال کیا جاتا ہے۔

پشاور کے دوسرے بڑے اسپتال خیبر ٹیچنگ کی نرسری 35 بیڈ پر مشتمل ہے۔ جہاں آٹھ انکیوبیٹرز میں سے تین خراب ہیں۔ دیگر انکیوبیٹرز تکنیکی مسائل کا شکار ہیں۔ یہاں ضرورت پڑنے پر بچوں کے لئے کوئی وینٹیلیٹر موجود نہیں ہے۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کی نرسری میں 20 بیڈز اور تین انکیوبیٹرز موجود ہیں مگر ایک بھی وینٹیلیٹر نہیں ہے۔

شہر میں بچوں کے لئے مخصوص چلڈرن اسپتال میں 10 وینٹیلیٹر ایک عرصے سے ناکارہ پڑے ہیں۔ جس کے باعث ایمرجنسی میں بچوں کو لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا جاتا ہے۔

نجی سیکٹر میں موجود بڑے اسپتالوں میں رحمان میڈیکل سنٹر، نارتھ ویسٹ ریسرچ سینٹر، ٹاون چلڈرن اسپتال شامل ہیں۔ جہاں مجموعی طورپر 35 انکیوبیٹرز اور تین وینٹیلیٹرز موجود ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق نومولود بچوں کی اموات کی ایک بڑی وجہ ان کے وزن میں کمی اور قبل از وقت پیدائش ہے۔ نوعمرلڑکیوں کی شادیاں، غذائیت کی کمی اور مناسب طبی معائنہ نہ کروانا بھی اس کا سبب بنتا ہے۔

حکومتی سطح پر اصلاحات کے دعووں کے برعکس صوبے کے کسی اسپتال میں بچوں کا آئی سی یو ہی نہیں ہے، جہاں ضرورت پڑنے پرعلاج کیا جا سکے۔


متعلقہ خبریں