‘قائد اعظم بدعنوانی کو ملک کیلئے زہر قاتل سمجھتے تھے‘


کراچی: سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح بدعنوانی کے سخت خلاف تھے اور اسے ملک کے لیے زہر قاتل سمجھتے تھے۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صفدر محمود نے کہا کہ علامہ اقبال نے محمد علی جناح سے متعلق کہا تھا کہ وہ نہ جھکتا ہے اور نہ بکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان میں الگ ہی خوبی رکھی ہے، قائد اعظم کے کردار کو تاریخ نے ثابت کیا۔

انہوں نے کہا کہ قائد اعظم نے کانگریس میں رہ کر ہندوؤں کو قریب سے دیکھا تو انہیں اندازہ ہوا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں اور یہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تو انہوں نے مسلمان قومیت کا نعرے لگایا اور ان کے لیے ایک الگ وطن کے لیے کوشش کی۔

ڈاکٹر صفدر محمود نے کہا کہ قائد اعظم اس بات کے قائل ہو چکے تھے کہ قائد اعظم اقلیت نہیں بلکہ ایک قوم ہیں اور اسی بنیاد پر وہ مسلمانوں کے الگ وطن کے قائل ہوئے۔

تجزیہ کار جاوید جبار نے کہا کہ قائد اعظم ایک ایسی صدر میں زندہ تھے جہاں انسانیت کو دو بڑی جنگیں دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ تشدد کی مذمت کی چاہے وہ ان کی ذات پر ہی کیوں نہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قائد اعظم نے ہمیشہ انتقام لینے سے پرہیز کیا اور کہا کہ تشدد کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا تھیٹر کے ساتھ ایک خاص رشتہ تھا۔ قائد اعظم لوگوں کے درمیان انسانیت کے رشتے پر زور دیتے تھے انہوں نے تمام مذاہب کے انسانوں کو انسانیت کی نگاہ سے دیکھا۔

جاوید جبار نے کہا کہ قائد اعظم نے اس وقت بھی زور دیا تھا کہ بدعنوانی ایک ایسا زہر ہے جو ریاست کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے اور اس کی سخت مذمت کی تھی۔ قائد اعظم نے آزاد وطن کے حصول کے بعد کہا تھا کہ میری ذمہ داری ختم ہو گئی اب آپ لوگ خود اپنی ذمہ داری کو سنبھالیں۔

ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کہا کہ20ویں صدی جن بڑی شخصیات کے گرد گھومتی ہے ان میں قائد اعظم محمد علی جناح بھی شامل ہیں جو مکمل طور پر آزاد ذہن رکھنے والے انسان تھے۔ قائد اعظم مسلمانوں کے لیے ایک بڑی شخصیت بن کر ابھرے تھے۔

انہوں نے کہا کہ قائد اعظم نے اپنی سیاست کا آغاز ہندو مسلم سفیر کی حیثیت سے کیا اور کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کی تاہم بعد میں انہوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آزاد وطن کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔ قائد اعظم نے جو فلسفہ پیش کیا اس سے مسلمان اور ہندو دونوں ہی مطمئن تھے۔ ہندو تنظیموں اور انتہا پسندوں نے کبھی بھی قائد اعظم کو قبول نہیں کیا تھا تاہم قائد اعظم نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کا فارمولہ پیش کیا۔

ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کہا کہ خود ہندوستان میں درجنوں کتابیں لکھی گئی ہیں جس میں لکھا گیا کہ محمد علی جناح کوئی فتنہ و فساد نہیں چاہتے تھے۔ قائد اعظم نے شروع میں تو کوشش کی کہ ہندوستان میں ہی مسلمانوں کو اقلیت سمجھ کر نہ دبایا جائے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ایسا ممکن نہیں تو انہوں نے ایک آزاد وطن کی جدوجہد کی۔

انہوں نے کہا کہ 72 سال قبل بھی بدعنوانی ایک مسئلہ تھا اور قائد اعظم نے بدعنوانی سے سخت نفرت کا اظہار کیا تھا جبکہ اقلیتوں کے تحفظ کی حمایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں نوجوان لیڈر شپ قائد اعظم کو اپنا رول ماڈل بنائے، عمران خان

پروفیسر کے ایس ناگپال نے کہا کہ ریاست کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں ہے۔ قائد اعظم بہت زیادہ جمہوریت پسند تھے۔

فتح محمد ملک نے کہا کہ قائد اعظم نے اپنی بیماری کے باوجود الگ وطن کے لیے محنت کی اور قرار داد کے سات سال بعد ہی ایک الگ وطن کا قیام عمل میں آیا۔

عامر ضیا نے کہا کہ ہمیں یاد ہیں اپنے وہ رہنما جنہوں نے ہمیں آزاد وطن کی نعمت سے نوازا۔ بھارت میں بسنے والے مسلمان آج پھر ظلم و جبر کے نشانے پر ہیں۔ مودی مسلمانوں کو بھارت میں تیسرے درجے کا انسان بنانے کا خواہاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سلام ہے تحریک آزادی کے مجاہدوں کو جنہوں نے ہندوؤں کے عزائم کو پہلے روز سے ہی جان لیا اور مسلمانوں کے لیے ایک آزاد وطن کا حصول ممکن بنایا۔ قائد اعظم کے ایک الگ وطن کا فلسفہ آج پھر ثابت ہو رہا ہے اور بھارت میں آج ہونے والا ظلم اس بات کا احساس دلا رہا ہے کہ قائد اعظم نے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کیوں بنایا۔


متعلقہ خبریں