دکھوں کو الفاظ کا روپ دینے والے منیر نیازی کو دنیا سے رخصت ہوئے تیرہ برس بیت گئے



اسلام آباد: گوشہ نشین طبعیت کے مالک، دکھوں کو الفاظ کا روپ دینے والے اور منفرد شاعری کے درخشاں ستارے منیر نیازی کو دنیا سے رخصت ہوئے تیرہ سال بیت گئے ہیں۔

دلفریب انداز میں رومان اور ناراضی کا اظہار کرنے والے منیر نیازی نو اپریل انیس سو اٹھائیس کو ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔

محفل آرا تهے مگر پهر کم نما ہوتے گئے
دیکهتے ہی دیکهتے ہم کیا سے کیا ہوتے گئے
ناشناسائی دہر کی تنہا ہمیں کرتی گئی
ہوتے ہوتے ہم زمانے سے جدا ہوتے گئے

منیر نیازی نے شعر و ادب کی دنیا میں ایسا منفرد مقام بنایا کہ ان کا پیغام آج بھی متلاشی ادب لوگوں کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہے۔

شاعری کا منفرد اور اچھوتا اسلوب ان کے کلام کا خاصہ ہے اور اسی انداز کے باعث ان کا شمار ممتاز ترین جدید شعرا میں ہوتا ہے۔

منیر نیازی کے لکھے مقبول فلمی گانوں میں ’جس نے میرے دل کو درد دیا، جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا، کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آجاتے ہیں، زندہ رہیں تو کیا مرجائیں ہم تو کیا ہے اور اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ سمیت بے شمار گیت شامل ہیں۔

صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا

اردو شاعری کے منیر نیازی کے مجموعہ کلام تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک اور ماہ منیر جب کہ پنجابی میں بھی ان کے تین مجموعہ کلام سفر دی رات، چار چپ چیزاں اور رستہ دسن والے تارے سمیت اٹھارہ مجموعے شائع ہوئے ہیں۔

شاعر بے مثال کہ اہلیہ ان کے ساتھ گزرے لمحات کو زندگی کا سرماہ سمھجتی ہیں۔

معاشرے کی بے مروتی اور انسانوں کی بے رخی پر اس ناراض شاعر کو حکومت پاکستان نے تمغہ حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا۔

کج شہر دے لوک وی ظالم سن ۔۔ کج سانوں مَرن دا شوق وی سی کا خالق یہ البیلا شاعر 26 دسمبر 2006 کو منوں مٹی تلے جا سویا لیکن ان کی سوچ آج بھی مینارہ نور کی طرح روشن ہے۔


متعلقہ خبریں