خوشبو اور محبتوں کی شاعرہ پروین شاکر کی پچیسویں برسی آج منائی جا رہی ہے


 خوشبو اور محبتوں کی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے پچیس برس بیت گئے۔

محبتوں اور خوشبوؤں کو شعروں  میں سمونے والی پروین شاکر چوبیس نومبر  1952 میں کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے بہت چھوٹی سی عمر میں شعر اور شاعری کا آغاز کیا۔

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا

مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا؟

شاعری کی دنیا میں انہیں احمد ندیم قاسمی جیسے ادیب کی سرپرستی حاصل رہی، ان کی معروف کتابوں میں خوشبو، صد برگ، خود کلامی، انکار اور ماہ تمام شامل ہیں۔

بچھڑے جو ایک بار تو ملتے نہیں دیکھا
اس زخم کو کبھی ہم نے سلتے نہیں دیکھا

پروین شاکر نے اردو غزل کی رومانوی کیفیت کو نسوانی آہنگ سے نوازا اور ان کی پہلی ہی کتاب ’خوشبو‘ کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔

پروین شاکر کو حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔

جو بادلوں سے بھی مجھ کو چھپائے رکھتا تھا
بڑھی ہے دھوپ تو بےسائبان چھوڑ گیا

انہوں نے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر سادہ الفاظ میں انا اور انکار کو شعر کا روپ دیا۔

پروین شاکر چھبیس دسمبر 1994 کو اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے میں جان کی بازی ہارگئیں مگر ان کے الفاظ کے انتخاب اور لہجے کی شگفتگی کا سحر آج بھی زندہ ہے۔

میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی


متعلقہ خبریں