ملکہ غزل اقبال بانو کو بچھڑے 12 برس بیت گئے


اسلام آباد: غزل کی ملکہ کا لقب حاصل کرنے والی اقبال بانو کو ہم سے بچھڑے 12 برس بیت گئے۔

غزل گائیگی کا ذکر اقبال بانو کے بغیر نامکمل ہے، انہوں نے غزل کو اپنی آواز سے نئی بلندیوں تک پہنچایا اور اپنا نام بھی امر کر لیا۔

منفرد گائیگی سے موسیقی کی دنیا میں اہم مقام بنانے والی اقبال بانو 1935 میں دہلی میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے 1950 میں اپنے فنی کیریر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا۔

مہدی حسن کے بعد  فیض احمد فیض کے کلام کو گانے میں اقبال بانو کو کمال حاصل تھا۔

پچاس کے عشرے میں اقبال بانو نے پاکستان کی نوزائیدہ فلم انڈسٹری میں پلے بیک سنگر کے طور پر اپنی شناخت بنائی، گمنام، ناگن، عشق لیلی، سرفروش  اور قاتل کے لیے گائے گانوں نے انہیں امر کر دیا۔

انہوں نے غزل کو بھی اپنے مخصوص نیم کلاسیکی انداز میں اپنایا اور جو بھی گایا لازوال بنا دیا۔

فیض احمد فیض کی نظم ’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ گا کر غزل و نظم میں اپنا لوہا منوانے والی اقبال بانو نے فیض صاحب کے علاوہ علامہ اقبال، مرزا غالب اور احمد فراز کے کلام کو بھی خوب گایا۔

انہیں  تمغہ حسن کارگردگی سمیت بے شمار اعزازات سے نوازا گیا۔

اقبال بانو 21 اپریل 2009 کو اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر  خاک میں پنہاں ہو گئیں لیکن ان کی آواز آج بھی کہیں سنائی دے تو اہل دل کے قدم رک جاتے ہیں اور دھڑکن جیسے قابو میں نہیں رہتی۔


متعلقہ خبریں