ترقی یافتہ ممالک کے درمیان چاند پر بستیاں بسانے کی دوڑ شدید تر


50 برس پہلے اسی ماہ دو انسانوں نے پہلی بار چاند پر چہل قدمی کی تھی، ان کے ہر قدم پر ہزاروں یا شاید لاکھوں ڈالر خرچ ہوئے، یہ انسانی تاریخ کے اہم ترین اور مہنگے ترین واقعات میں سے ایک تھا جس کی تصاویر اور ویڈیوز دنیا کے کروڑوں لوگ اب تک دیکھ چکے ہیں۔

اس کے ساڑھے تین سال بعد تک 10 مزید افراد نے چاند پر قدم رکھا لیکن اس کے بعد یہ سلسلہ پوری طرح منقطع ہو گیا۔

تین بڑے ممالک دوڑ میں شریک

اب کچھ عرصہ سے دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان اس اجنبی سرزمین پر مستقل رہائش گاہیں تعمیر کرنے کی جدوجہد شروع ہو چکی ہے، امریکی خلائی ایجنسی ناسا اس وقت سب سے آگے ہے اور اسے وائٹ ہاؤس کی جانب سے پوری حمایت حاصل ہے۔

ناسا نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہوا ہے کہ وہ 2024 تک انسانوں کو ایک بار پھر چاند پر پہنچائیں گے تاہم اس دعویٰ پر کئی ماہرین نے شکوک کا اظہار کیا ہے۔

اسی برس اپریل میں چین کی نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن کے ڈائرکٹر یانگ کیجیان نے اعلان کیا کہ ان کا ملک آئندہ دس برسوں کے اندر چاند کے جنوبی حصے میں رہائش کے قابل ریسرچ اسٹیشن تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اس وقت امریکہ کے بعد چین نے خلائی مقاصد کے لیے دنیا کا سب سے بڑا بجٹ مختص کیا ہوا ہے۔

چین سے بھی قبل روس نے 2031 تک اپنے خلابازوں کو پہنچانے اور 2034 تک وہاں ایک بیس تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔

اسی دوران یورپین اسپیس ایجنسی کے سربراہ نے ’چاند بستیاں‘ کے نام سے نیا تصور پیش کیا ہے جس کے مطابق بین الاقوامی سطح کی ایک کالونی بسائی جائے گی جس کا کام چاند پر سائنس، سیاحت اور کاروبار کی سہولتیں فراہم کرنا ہو گا۔

اگرچہ کئی لوگ ان تمام منصوبوں کی کامیابی کو مشکوک گردانتے ہیں تاہم ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان اس وقت کن خطوط پر سوچ رہ ہے۔

چاند کے مدار میں مستقل گیٹ وے

ناسا کا کہنا ہے کہ وہ چاند کے اوپری مدار میں ایک چھوٹا سا خلائی اسٹیشن قائم کرنا چاہتے ہیں جسے گیٹ وے کا نام دیا جائے گا اور وہ اسٹور ہاؤس، اسمبلی کی سہولت اور زمین اور چاند کے درمیان سفر کرنے والے انسانوں کے لیے لیبارٹری کا کام دے گا۔

ناسا کے مطابق یہ گیٹ وے خلا میں کام کرنے کا وہ ضروری تجربہ فراہم کرے گا جو مریخ کی طرف انسانوں کو بھیجنے کے حوالے سے بہت اہم ثابت ہو گا۔

پرائیویٹ ارب پتی افراد کے منصوبے

ماضی میں خلا کی تسخیر اور سیاروں پر کمند ڈالنے کی خواہش کے پیچھے قومی تفاخر اور ملکی ادارے کام کیا کرتے تھے تاہم گزشتہ بیس سال کے دوران ایک نئے عنصر نے خلائی دوڑ کو نئی مہمیز دی ہے۔

تجارتی بنیادوں پر خلا کی طرف جانے کی خواہش اس وقت سب سے اہم ہو چکی ہے اور امریکہ میں اس کا سہرا جیف بیزوس اور ایلان مسک کے سر باندھا جا سکتا ہے۔

ایلان مسک کی پوری توجہ اس وقت مریخ پر انسانوں کو منتقل کرنا اور اسے قابل رہائش بنانا ہے۔

چاند پر رہائش کی راہ میں حائل مشکلات

ویسے تو چاند پر مستقل رہائش کی واہ میں بے شمار رکاوٹیں اور مشکلات حائل ہیں جن پر قابو پانے کے لئے مسلسل جدوجہد جاری ہے لیکن تین بڑی رکاوٹیں ایسی ہیں جنہیں دور کیے بغیر خلا کی تسخیر ناممکن ہے۔

1۔ چاند کی خاک : چاند کی سطح پر پاؤڈر کی شکل میں مسلسل خاک گرتی رہتی ہے جو انسانی آنکھوں، پھیپھڑوں اور ناک میں گھس جاتی ہے۔ اپالو2 کے ذریعے چاند پر چہل قدمی کرنے والوں کے خلائی لباس اور شٹل تک میں یہ ذرات گھس گئے تھے۔

2۔ چاند پر خطرناک شعاعیں : چاند کی سطح پر ہر وقت ایسی شعاعیں موجود رہتی ہیں جن کے باعث انسان کا زیادہ دیر زندہ رہنما ممکمن نہیں۔

3۔ کمزور کشش ثقل : زمین کی نسبت چاند پر کشش ثقل بہت کم ہوتی ہے جس کے باعث کم وزنی کے احساس کے ساتھ ساتھ انسانی جسم پر دیگر خطرناک اثرات پڑتے ہیں۔

اگرچہ یہ بات یقینی ہے انسان مستقبل میں چاند اور مریخ کے علاوہ دیگر خلائی مظاہر کو بھی تسخیر کر لے گا لیکن کوئی نہیں جانتا کہ اس میں کسقدر دیر لگے گی۔ تاہم ایک بات یقینی ہے کہ چاند پر بستیاں بسانا اس بڑے سفر کی پہلی منزل ہو گی۔

 

 


متعلقہ خبریں