سینٹ اجلاس: مشرف کے معاملے پر وفاقی حکومت اپنے خلاف جارہی ہے، رضا ربانی


اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے معاملے پر وفاقی حکومت اپنے ہی کیس کے خلاف جارہی ہے۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کیس بنایا تھا۔ آج حکومت کہہ رہی ہے کہ اس کیس کو یا واپس لیں گے یا اس کی سزا کے خلاف جائیں گے۔ اس پر ایوان میں بات ہونا ضروری تھا۔ اس معاملے پر پوری لیگل ٹیم نے مشرف کو بچانے کی کوشش کی ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر ایران، ترکی اور ملائیشیا نے پاکستان کا ساتھ دیا، مگر سعودی عرب کی وجہ سے ہم نے اپنی سلامتی کو گروی رکھ دیا۔

انہوں نے کہا کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم کرکے حکومت نے دو کلاسز کو احتساب کے عمل سے نکال دیا ہے۔ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ سرمایہ داروں ور سول بیوروکریسی کو نیب سے نکال دیں۔ سرمایہ داروں، بیوروکریسی اور ججز کے حوالے سے قانون ہے، فوج کا اپنا نظام ہے، اب رہ کون گیا، میں اور آپ رہ گئے ہیں۔

رضا ربانی نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئین موجود بھی ہے اور معطل بھی۔ آئین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔ آئین کے مطابق دو سیشنز کے درمیان 120 دن کا وقفہ نہیں ہوسکتا۔

سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چئیرمین صاحب آپ نے اس حوالے سے خط لکھے لیکن حکومت نے اجلاس نہیں بلایا۔اکتوبر کے مہینے سے لے کر آج تک جان بوجھ کر اجلاس نہیں بلایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران صدر مملکت نے 16 آرڈیننسز جاری کر دیے۔ ایوانِ صدر کو آرڈینس فیکٹری میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ تین ستمبر سے اگر آج تک گنیں تو یہ 121 دن بنتے ہیں۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ کے سینیٹر راجہ ظفرالحق نے کہا کہ کہ سینیٹ کا اجلاس بہت تاخیر سے شروع ہوا۔ سینیٹ سیکریٹریٹ سے پتہ کروایا گیا کہ اجلاس کب بلایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ انتظار کرتے کرتے 30 دسمبر 2019 کو ریکوزیشن کے ذریعے اجلاس بلایا۔ 6 نکات پر مشتمل ریکوزیشن میں اجلاس بلانے کی درخواست کی۔ لگتا ہے حکومت نے جلدی میں اجلاس بلایا ہے، اس لیے نظر آرہا ہے کہ اجلاس میں اراکین کی تعداد کم ہے۔

راجہ ظفرالحق نے کہا کہ مہینوں تک سینیٹ کا اجلاس نہیں بلایا گیا۔ ہم کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن پر بات کرنا چاہتے تھے۔ کشمیری عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے پر بھی بات کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ  ملکی معاملات غیر آئینی طریقے سے چلائے جا رہے ہیں۔ سیاسی انتقام کا سلسلہ جاری ہے۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہم نے عوام کیلئے کیا قانون سآزی کی ہے۔ سال 2019 میں حکومتی عدم دلچسپی کے باعث قانون سازی نہیں کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ نئے سال کے آغاز پر بجلی، ایل پی جی، آٹے اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ حکومت کو بتانا ہو گآ کہ اسے ہر محاذ پر ناکامی کیوں ہو ئی ہے؟

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ آج کشمیر کا مسئلہ کہاں گیا۔ کشمیر کے معاملے پر حکومت نے مکمل خاموشی اختیار کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف وزیراعظم جلسوں میں عدالتوں سے متعلق بات کرتے ہیں، جس کا جواب چیف جسٹس دیتے ہیں۔ اداروں کے درمیان ٹکراو کی صورتحال ہے۔

سراج الحق نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے لیے سب سے پہلے غدار کا لفظ عمران خان نے ادا کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت آگے چلنے سے پہلے اپنی کارکردگی پیش کرے۔ اپوزیشن کی ریکوزیشن کو حکومت نے بلڈؤز کیا ہے۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹر مولانا غفور حیدری نے کہا کہ گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر کے قوم پر حملہ کیا گیا ہے۔نئے سال کے آغاز پر عوام پر ڈرون حملہ کیا گیا ہے۔ حکومت میں صلاحیتوں کا فقدان ہے۔

انہوں نے کہا کہ بڑی مشکل سے سینیٹ کا اجلاس بلایا گیا ہے۔ پرویز مشرف کے فیصلے سے متعلق بحث پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے تھی۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر جگ ہنسائی ہوئی۔

مولانا غفور حیدری نے کہا کہ دونوں ایوانوں کی موجودگی کے باوجود حکومت آرڈنینس پہ آرڈنیس لا رہی ہے۔ نیب ترمیمی قانون میں سیکشن 14 کو تو بالکل ختم ہی کر دیا گیا ہے۔ ہم روز اول سے نیب اور اسکے کالے قوانین کے خلاف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ارکان کو عدالتوں میں گھسیٹا گیا اور پگڑیاں اچھالی گئیں۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی  فواد چوہدری نے کہا کہ ہمآرے تمام ادارے معاملات میں قصور وار ہیں۔ غلطیاں عدلیہ سے بھی ہوئی ہونگی اور فوج سے بھی۔ بہت سے معاملات میں حکومت نے بھی غلطیاں کی ہونگی۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم آپس میں دست وگریبان رہیں گے تو معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ملک پھر بہت پیچھے رہ جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ اتفاق رائے کبھی بھی سو فیصد پیدا نہیں کی جاسکتی ہے۔ اگر ہم چیف الیکشن کمیشن ملکر نہیں لگا سکتے تو ہم احتساب کے عمل کو بہتر بنا ہی نہیں سکتے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ الیکشن کمیشنر، احتساب اور آرمی ترمیمی بل پر اتفاق راے ہونی چاہیے۔الیکشن کمیشن، احتساب کے نظام سمیت بڑے معاملات پر اپوزیشن بیٹھ کر بات کر لے۔ اس حوالے سے مشترکہ ایجنڈا تیار کر لیا جائے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ فوج صرف پاکستان تحریک انصاف کی نہیں ہے، یہ ن لیگ اور دیگر جماعتوں کی بھی ہے۔ عدلیہ کا احترام ہم سب پر لازم ہے۔ سپریم کورٹ آرٹیکل 62 کے تحت ہمارا احتساب کرتی ہے۔ سپریم کورٹ خود پارلیمانی کمیٹی میں آنے کو تیار نہیں ہے

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے پی ٹی آئی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ وزیراعظم کا مشن پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ ہے۔ ہم کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے۔ جس نے ملک لوٹا اس کا احتساب ناگزیر ہے۔

انہوں نے کہا وزیراعظم عمران خان کیجانب سے بے گھر افراد کے لیے قائم پناہ گاہوں کا سب سینیٹرز دورہ کریں۔

سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اجلاس ضرور ہونے چاہئیں، لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وزیراعظم کی پہلی تقریر میں کہا گیا کہ حکومت فیل ہوگئی۔ یہاں پر اپوزیشن اسیر ارکان کے پروڈکشن آرڈر کے لیے شور مچاتی ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ایوان صدر کو آرڈننس فیکٹری اور پارلیمنٹ کو آڑڈننس ڈپو بنادیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوالالمپور سمٹ میں نہ جاکر ہم نے واضح کیا کہ پالیسی کا سمت تعین ڈالر کرتاہے۔ حکومت نے خام مال درآمد کم کی جس سے کارخانے بند ہورہے ہیں۔ ایف بی آر کو سو ارب سے زیادہ شارٹ فال کا سامنا ہے۔ کیا 2020میں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی واپس آئینگی؟


متعلقہ خبریں