قومی اسمبلی کا اجلاس: وزیراعظم کی عدم موجودگی میں اپوزیشن کا احتجاج

فوٹو: فائل


اسلام آباد: وفاقی وزیر مراد سعید نے کہا ہے کہ موجودہ سال عوام کے لیے خوش قسمتی کا سال ثابت ہوگا اور ہم انشا اللہ ترقی کریں گے۔ انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خواجہ آصف کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سب کو اجلاس کے متعلق آگاہی ہونی چاہیے، ہم ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔

ہم نیوز کے مطابق مختصر نوٹس پر طلب کیے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف کی جانب سے سخت احتجاج کیا گیا۔ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان بھی شریک نہیں ہوئے۔

وفاقی وزیرمراد سعید نے اپنے خطاب میں کہا کہ 2020 پاکستان کی ترقی اور معیثت کو آئی سی یو سے نکالے جانے کا سال ہے. انہوں نے کہا کہ ہم نے ملکی معیثت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔ انہوں نے کہا کہ آٹھ جنوری کو پورے پاکستان میں احساس پروگرام شروع کررہے ہیں۔

ہم نیوز کے مطابق وفاقی وزیر مراد سعید کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے احتجاج کیا۔

سابق وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر اجلاس چلانا ہے تو چلائیں لیکن اگر کارکردگی کی بات کریں گے تو ہمارے پاس پلندہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کی چیخیں نکلوا دی گئی ہیں اورعوام رو رہی ہے۔

قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی سید نوید قمرالزماں شاہ نے جلد بازی میں اجلاس طلب کرنے پراستفسار کیا کہ اس فیصلے کے پیچھے کیا منطق ہے؟ ان کا مؤقف تھا کہ کئی اراکین اسمبلی کو اپنے حلقوں سے اسلام آباد پہنچنے کے لیے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار ایاز صادق نے اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی اسپیکر سے کہا کہ ان تمام اراکین کے سوالات کو مؤخر کردیں جو اس وقت ایوان میں موجود نہیں ہیں۔

سابق وزیر اعطم اور پی پی پی کے مرکزی رہنما راجہ پرویز اشرف نے اپنے خطاب میں کہا کہ کئی اراکین پارلیمنٹ کراچی اور ملتان ایئرپورٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں جب کہ بلوچستان سے لوگ نہیں آ پارہے ہیں کیونکہ اجلاس کو 24 گھنٹے سے بھی کم وقت کے نوٹس پر طلب کیا گیا ہے۔

پی پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ اراکین سوالات کو مؤخر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ اکثر سوالات کے جوابات تحریری شکل میں نہیں دیے گئے ہیں جو ایک مذاق ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے اور ہم احتجاج رجسٹر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم قیمتوں میں اضافے پر بحث کرنا چاہتے ہیں۔

ہم نیوز کے مطابق پی ایم ایل (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ اراکین کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے وہ خود ایوان میں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اکتوبر سے شروع ہونے والی پوری سہہ ماہی میں ایوان میں نہیں آئے جب کہ اجلاس دس جنوری کو شیڈول تھا مگر حکومت نے اچانک طلب کرلیا۔

وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے اپنے خطاب میں کہا کہ تمام ادارے نہ تو ہر معاملے میں مکمل قصور وار ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر بے قصور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، ہم سے بھی ہوئی ہوں گی۔

اپنے سابقہ انداز کے برخلاف تقریر کرتے ہوئے فواد چودھری نے کہا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں ٹانگ دو اور اپنے پی سی او ججز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں رہنے دو۔

ہم نیوز کے مطابق وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بنیادی معاملے پر بے شک تلخیاں رہی ہیں لیکن جن معاملات پر اتفاق رائے ہوسکتا ہے ان پر ہمیں ایک ہونا چاہیے۔

فواد چودھری نے ماضی کے برعکس نہایت دھیمے انداز میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں کم از کم اتفاق رائے درکار ہوتاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن، احتساب قوانین اور فوج کے قوانین پر حکومت و اپوزیشن میں اتفاق رائے ہوسکتا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا کہ آپ کے وزیراعظم بھی ایک ادارہ ہیں لہذا ان کا احترام بھی لازمی ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر مملکت شہریار آفریدی نے کہا کہ ایوان میں موقع دیں، میں ثابت کردوں گا کہ جھوٹ کون بول رہا ہے؟ انہوں ںے کہا کہ جھوٹ اور جان دینے کی بات کی جا رہی ہے تو میں کہتا ہوں کہ کچھ لوگ جان اللہ کو دیتے ہیں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کی طرح جب کہ کچھ لوگ شمر اور فرعون کی طرح جان لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت بتائے گا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے؟

وفاقی وزیر مملکت شہریار آفریدی نے کہا کہ فاٹا کا بجٹ 58 ملین تھا مگرموجودہ حکومت نے فاٹا کے لیے 162 ارب روپے رکھے ہیں۔

قومی اسمبلی کا اجلاس جمعرات کی صبح گیارہ بجے تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

حکومت نے گزشتہ روز اچانک قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا تھا جب کہ اس سے قبل 16 دسمبر کو اجلاس اچانک ملتوی کیا گیا تھا حالانکہ ایڈوائزری کمیٹی نے طے کیا تھا کہ اجلاس 20 دسمبر تک جاری رہے گا مگر ایسا نہیں ہوسکا تھا۔


متعلقہ خبریں