پاکستان جنگ کا حصہ بننے کے بجائے اپنے مفادات دیکھے، سابق سیکرٹری خارجہ


اسلام آباد: سابق سیکرٹری خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے کسی بھی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہے بلکہ صرف اپنے مفادات کو سامنے رکھنا چاہیے۔

ہم نیوز کے پروگرام بریکنگ پوائنٹ ود مالک میں بات کرتے ہوئے بغداد میں موجود تجزیہ کار اسامہ بن جاوید نے کہا کہ عراق میں امریکہ کے خلاف سخت غم و غصہ موجود ہے اور امریکی فوج کے انخلا پر زور ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی حملے کے بعد امریکی فوجیوں پر راکٹ حملے کیے جا رہے ہیں جو کسی بڑی جنگ کی جانب جا سکتے ہیں۔ عراقی پارلیمنٹ سے امریکی فوج کے انخلا کی قرار داد پاس ہونے کے باوجود اس پر عملدرآمد بہت مشکل ہے کیونکہ موجودہ عراقی حکومت عبوری حکومت ہے۔

اسامہ بن جاوید نے کہا کہ امریکہ اپنی مزید فوج اس خطے میں بھیجنے کی ارادہ رکھتا ہے جن کی تعداد 4 ہزار سے زائد ہو گی۔

سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے کہا کہ بڑے فیصلے جنگ کے میدانوں میں نہیں ہوتے۔ عراقی پارلیمنٹ سے پاس ہونے والی قراردادوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ فرق صرف اسی صورت میں پڑے گا جہاں فیصلے ہوتے ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی کمانڈر کے ساتھ ہونے والے واقعے کے اثرات ہمارے خطے میں بھی آئیں گے تاہم پاکستان کا کردار اس وقت بہت اچھا ہے۔ صورتحال واضح ہونے کے باوجود پاکستان کو چوکنا رہنا ہو گا اور جنگ ہوئی تو اسے کوئی نہیں سہہ سکے گا۔

شمشاد احمد خان نے کہا کہ اگر ایرانی واقعے پر ردعمل آیا تو اس سے امریکہ کو زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔ افغان جنگ کے بعد ہم نے جو سبق سیکھا کہ اب کسی اور جنگ کا حصہ نہیں بننا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی جنگ شروع ہونے والی ہے لیکن ہمارے میڈیا نے جنگ کے حوالے سے بہت زیادہ ہوا بنا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں کوئی نئی جنگ ہونے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ وہ تو مسلسل جنگ کی حالت میں ہی ہے۔ پاکستان کو صرف اپنے آپ کو بچانے کی ضرورت ہے اور کسی بھی ملک کی طرفداری نہیں کرنی چاہے۔

سابق سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ ایران سے ہمارا ایک تعلق رہا ہے اور وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ کھڑا ہوا ہے جبکہ ایران کے ساتھ ہمارے ملک کی سرحد کا بڑا حصہ لگتا ہے۔ اس سارے معاملے میں پاکستان کو صرف اپنے مفادات کو دیکھنا ہے۔

ماہر بین الاقوامی امور ڈاکٹر عادل نجم نے کہا کہ امریکہ کے ذہن میں اس وقت صرف ایران نہیں بلکہ افغانستان بھی ہے اور دونوں کے ساتھ پاکستان موجود ہے۔ امریکہ اور ایران دونوں ممالک کی جانب سے ہی سخت بیانات سامنے آ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان معاشی طور پر کمزور ملک ہے تاہم پاکستان کو اپنے بیانیے پر کھڑے رہنا چاہیے۔ ہم نے تاریخ سے جو سبق سیکھا ہے کیا ہم اس پر کھڑے رہ سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کو امداد کی لالچ دی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر عادل نجم نے کہا کہ ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے کہ ہم کس کا ساتھ دیں اور کس کا ساتھ نہ دیں۔ ہمیں کسی بھی ملک کا ساتھ دینے کے بجائے پاکستان کا مفاد دیکھنا چاہیے۔ پاکستان کوئی ایسا طریقہ نکالے کے اسے کچھ نہ کرنا پڑے۔

تجزیہ کار مشرف زیدی نے کہا کہ ایرانی جنرل کے واقعے کے بعد پاکستان اب مزید مشکل دور سے گزرے گا۔ ہمیں تھوڑی سی حکمت اپنانی ہو گی اور امریکہ ایران معاملے میں ٹانگ اڑانے سے بچنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم کسی جنگ کا حصہ بننے کی کوشش نہیں کرتے لیکن ہمیں جنگ میں گھسیٹا جاتا ہے اور ہم گزشتہ 40 سال سے ہی جنگی حالات میں موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں پاکستان کو مستحکم بنانے کے لیے قربانی دینی ہو گی، فردوس عاشق اعوان

مشرف زیدی نے کہا کہ مشکل حالات میں کوئی بھی ہمارے ساتھ کبھی کھڑا نہیں ہوا بلکہ ہم ہی دوسرے ممالک کے ساتھ کھڑے ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کا مفاد یہ ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب نہ ہونے دے۔ پاکستان کو کھل کر کسی کی طرفداری نہیں کرنی چاہیے۔

میزبان محمد مالک نے کہا کہ امریکی حملے کے بعد نئی جنگ چھڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے تاہم یہ پاکستان کے لیے ایک امتحان ہے کہ وہ کس کا ساتھ دے گا۔


متعلقہ خبریں