چپلی کباب، دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان


جیسے ہی سردی کی پھوار پڑتی ہے ذوق دہن کیلئے کچھ چیزیں میدان میں اُتر آتی ہیں، سمجھئے کہ ٹھنڈے موسم اور جن چیزوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے ان میں گرما گرم چپلی کباب بھی شامل ہیں۔ دنیا کے ہرعلاقے میں اپنی ثقافت اور روایات کے مطابق مختلف ناموں سے کباب بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بیشتر اقسام کے کباب تیار کئے جاتے ہیں لیکن خیبر پختونخواہ کے چپلی کباب کے ذائقے کا کوئی ثانی نہیں۔ دارالحکومت پشاور کی نمک منڈی، حیات آباد، قصہ خوانی، چوک یادگار، شعبہ بازار، نوتھیا روڈ اور فردوس سینما روڈ کے چپلی کبابوں کا جواب نہیں۔ ان کی اشتہاءانگیز خوشبو لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس کی پسندیدگی کا یہ عالم ہے کہ پرہیز کرنے والے بھی سردی کے موسم میں ان کبابوں کی وجہ سے تھوڑی بہت بدپرہیزی کر ہی لیتے ہیں۔

پشاور کے بعد تخت بائی، تارو جبہ، مردان میں مایار، شنکر اور ضلع صوابی میں رشکئی، شہباز گڑھی اور کالو خان کے چپلی کباب ذائقے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کوئی ان مقامات پر جائے اور کباب کھائے بغیر واپس آ جائے یہ ممکن نہیں۔ خیبر پختونخواہ میں مہمانوں کی تواضع کیلئے چپلی کباب لازم سمجھے جاتے ہیں، مہمانوں کیلئے سجائے گئے دسترخانوں پر چپلی کباب نہ ہوںا اس وقت ممکن ہے جب چپلی کباب دستیاب نہ ہوں۔ شادی بیاہ اور مختلف تقاریب کے کھانوں میں چپلی کباب کو بطور روایتی ڈش شامل کیا جاتا ہے جبکہ اعلیٰ سرکاری اور نجی ضیافتیں چپلی کباب کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہیں۔ چپلی کباب کا ذائقہ خیبر پختونخوا ہ سے نکل کر نہ صرف پورے ملک بلکہ بیرونی ممالک تک پھیل چکا ہے، آج یہ بلاشبہ دنیا کے مغربی حصے میں سب سے زیادہ کھائی جانے والی مشرقی ڈش ہے جسے دیسی، عرب، مڈل ایسٹرن، سینٹرل ایشین اور کاکیشین سب ہی پسند کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ترکی اور ایران کے سپاہی لمبے سفر کے دوران جانوروں کا شکار کرتے، پھر تلواروں پر گوشت کے پارچے لپیٹ کر انہیں جانوروں کی چربی میں ہی آگ میں بھون کر فوراً ہی چٹ کرجاتے۔ لفظ ”کباب “عربی زبان سے نکلا ہے لیکن اس پر ترک، ایرانی اور وسط ایشیائی بھی اپنا دعویٰ رکھتے ہیں، اسکا مطلب ہے سیخ میں لگا کر گرل پر یا کھلی آگ پر پکانا، فرائی کرنا یا جلانا۔ برصغیر پاک و ہند میں درجنوں اقسام کے کباب بنائے جاتے ہیں مگر ان سب کا پشاوری چپلی کباب سے کوئی مقابلہ نہیں۔ گو کہ گائے کے گوشت کے یہ چٹکیلے کباب بھیڑ، دنبے، مرغی یا بکری کے گوشت سے بھی بنائے جاتے ہیں لیکن چپلی کباب خالصتاً گائے یا دنبے کے گوشت کی ڈش ہے ۔ چپرخ، پشتو میں چپٹے کو کہتے ہیں اور چپلی اس لفظ سے اخذ کیا گیا ہے یعنی چپٹے گول کباب۔

گائے کے گوشت میں آٹے کا مناسب استعمال کرکے اس کے ذائقے کو انفرادیت بخشی جاتی ہے۔ چپلی کباب کے اجزاء کے تانے بانے افغانستان سے جڑتے ہیں اسی لئے اس میں اناردانے اور ثابت دھنیا پائے جاتے ہیں۔ ان اجزاء کے امتزاج سے بننے والے کباب لذیذ ہوتے ہیں۔ چپلی کباب کی تیاری میں گائے کی گردن ، ران اور دستی کے گوشت کا قیمہ استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ چپلی کباب میں قیمہ اور پیاز جتنے باریک ہوں گے کباب اتنا ہی عمدہ بنے گا۔ چپلی کباب کا دوسرا بڑا جزومکئی کا آٹا ہے جسے ملانے سے کباب نہ سکڑ تا ہے اور نہ ہی ٹوٹتا ہے۔ قیمے میں انار دانے، سوکھا ہوا دھنیا، پسا ہوا گرم مصالحہ، کٹی ہوئی سرخ مرچ اور ٹماٹر وغیرہ شامل کئے جاتے ہیں۔ اسپیشل آرڈر پر تیار کئے جانے والے کبابوں میں مغزیات، ادرک ، لہسن ، ہری پیاز، ہرا دھنیا، گرم مصالحے، بکرے کا مغز اور انڈوں کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ ان کبابوں کو گائے یا بھینس کی چربی، جسے پشتو میں ”ڈل “کہا جاتا ہے، میں تلا جاتا ہے۔ کباب بنانے والے چربی کو چپلی کباب کا لازمہ قرار دیتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ چربی میں تلے جانے کی وجہ سے ہی کباب زیادہ ذائقے دار یا چٹخارے دار بنتے ہیں۔


ٹیگز :
متعلقہ خبریں