آئین کے تحت وزیراعظم کسی بھی وقت آرمی چیف کو ہٹا سکتے ہیں، فواد چوہدری

فوٹو: فائل


اسلام آباد: وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے سے متفق نہیں کیوں کہ یہ آئین کے آرٹیکل 243کےبرعکس ہے۔

قومی اسمبلی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل پاس ہونے کے بعد پریس کا نفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں عدالت کے تمام فیصلے درست ہوں لیکن ان کو ماننا پڑتا ہے۔

فواد چوہدری نے بتایا کہ 1956کے آئین میں آرمی چیف کی مدت کا تعین کیا گیا تھا لیکن 1973کے آئین میں آرمی چیف کی مدت کا تعین ختم کر دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا جس کو ماننا ضروری ہے، وزیراعظم کے عہدے کا بھی احترام کرنا ہے اور ان کے پاس آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق اختیار ہے۔

وفاقی وزیر فواد چودھری کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے، آرٹیکل243 کے تحت وزیراعظم کسی بھی وقت آرمی چیف یا  کسی بھی فورس کے سربراہ کو ہٹا سکتے ہیں۔

وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس اعوان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ سیاسی جماعتوں نے اہم قانون سازی میں بردباری دکھائی، وقت آنے پر تمام سیاسی جماعتیں قومی مفاد کو ترجیح دیتی ہیں،

ان کا کہنا تھا سیاسی معاملات پر اختلافات رائے جمہوریت کا حسن ہے، سیاسی حریف ایک دوسرے پر تنقید کرتے رہتے ہیں لیکن قومی سلامتی کے معاملات پر تمام سیاسی جماعتیں یکجا ہوجاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے اپنی تمام تجاویز واپس لے کر حب الوطنی کا ثبوت دیا، سیاسی جماعتیں ملکی مفاد کیلئےسیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہیں۔

معاون خصوصی نے کہا وقت آگیا ہے کہ ملکی معاملات پر مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھائیں اور اس کو تقویت ملنی چاہیے۔ قومی سلامتی کےاداروں سے متعلق غیریقینی صورتحال سے ملک کمزور ہوگا۔

فردوس اعوان کا کہنا تھا کہ اداروں کومضبوط کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آئینی اور قانونی طریقے سے کام کرنا حکومت کے فرائض میں شامل ہے۔


متعلقہ خبریں