آرمی ایکٹ کو دوبارہ بحث کیلئے بھیجنا پیپلز پارٹی کی کامیابی ہے، ناز بلوچ


کراچی: پیپلز پارٹی رہنما ناز بلوچ نے کہا ہے کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کو دوبارہ بحث کے لیے بھیجنا پیپلز پارٹی کی کامیابی ہے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی رہنما ناز بلوچ نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت کا ساتھ دیا ہے تاہم پیپلز پارٹی نے بل کے لیے مشاورت کا مشورہ دیا تھا اور قانون سازی میں اپنا حصہ ملانے کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کو دوبارہ بحث کے لیے بھیجنا پیپلز پارٹی کی کامیابی ہے اور ہم یہی چاہتے تھے کہ بل کو پاس کرنے کے لیے جمہوری طریقہ اپنایا جائے۔ پیپلز پارٹی چاہتی تھی کہ قانون سازی میں کوئی خم باقی نہ رہ جائے جس کی وجہ سے بعد میں سبکی اٹھانا پڑے۔

ناز بلوچ نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے آرمی ترمیمی ایکٹ بل کی حمایت پی ٹی آئی کو خوش کرنے کے لیے نہیں بلکہ قومی مفادات کی وجہ سے کیا ہے۔ پیپلز پارٹی جو ترمیم لانا چاہتی تھی اس پر پارٹی نے کام کیا اور اپنی رائے دینا سب کا حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعے ہی تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے اور جمہوری طریقہ اختیار کیا جائے۔ ہر سیاسی جماعت یہ کہتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے تاہم الیکٹورل ریفارمز کی ضرورت ہے تاکہ بعد میں کوئی جماعت دھاندلی کا الزام عائد نہ کرے۔ اس کے لیے حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سنجیدگی سے قانون سازی پر عملدرآمد کرے۔

پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ ہم نے نیب کے قوانین میں بھی ترمیم لانے کی کوشش کی تھی کیونکہ نیب کے قوانین آمر کے بنائے گئے تھے جس میں مسلم لیگ ن نے ہمارا ساتھ نہیں دیا جس کا ان کو بعد میں پچھتاوا بھی تھا۔ سیاسی پارٹیاں اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں اور یہی جمہوری عمل ہے۔ اقتدار صرف حکمرانی کرنا نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک ذمہ داری ہوتی ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے جو اعلان کیا تھا وہ اس سے پیچھے ہٹ گئی جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ شاید کوئی معاملات طے ہو گئے تھے جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے بھی معاملات میں نرمی آ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی الیکشن کمیشن سمیت دیگر معاملات میں بھی قومی مفادات تھے لیکن اس میں کوئی اتفاق رائے پیدا نہیں ہوا تھا لیکن اب کیوں ہوا ؟ تاہم اگر یہ رویہ برقرار رہے تو یہ جمہوریت کے لیے بہت اچھی بات ہے۔

سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ حکومت نے اہم قانون سازی کرنی ہوتی ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ حزب اختلاف کے ساتھ نرم لہجہ اختیار کیا جائے۔ مدت ملازمت میں توسیع کے لیے ٹھوس وجہ ہونی چاہیے صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ملکی مفاد میں کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کا معاملہ انتہائی حساس ہے اور اس کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے تھا۔ حکومتیں تو اپنی مدت پوری کر رہی ہیں لیکن وزرائے اعظم کی مدت پوری نہیں ہو رہی۔ سیاسی ریفارمز کی بھی ضرورت ہے۔

مظہر عباس نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی قانون سازی سے یہ فائدہ تو ہوا کہ اب ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوتی۔ اداروں کو اپنے اپنے حدود میں رہ کر کام کرنا چاہے جس کے لیے ان کے ضابطے بھی موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں ڈیڑھ سال میں 9 لاکھ قابل افراد باہر چلے گئے، سینیٹر سراج الحق

رہنما جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے رہنما کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہمارے جانب سے بل کا بائیکاٹ کیا گیا تھا اسمبلی کا نہیں۔ پاک فوج ہماری بھی فوج ہے لیکن اداروں کو کمزور کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مدت ملازمت میں توسیع پہلے صرف ایک دفعہ ملتی تھی لیکن اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب ایک سے زائد توسیع بھی ہو سکتی ہے جو نقصان کا باعث بنے گا۔

کامران مرتضیٰ نے کہا کہ کنٹرولڈ جمہوریت مضبوط ہوئی ہے جس میں اختیارات کسی اور کے پاس ہوتے ہیں لیکن سامنے کسی اور کا چہرہ ہوتا ہے۔ جے یو آئی ف اپنی 15 نشستوں کے ساتھ جو کچھ کر سکتی ہے وہ کر رہی ہے۔

میزبان عامر ضیا نے کہا کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں ہی جماعتوں نے حمایت کی جس کی وجہ سے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔


متعلقہ خبریں