پرویز مشرف کی درخواستیں: لاہور ہائی کورٹ کی وکلا کو تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت


لاہور: سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف کی تین متفرق درخواستوٓں کی سماعت کرنے والے لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریمارکس دیے ہیں کہ خصوصی عدالت نے فیصلہ کن بنیادوں پر دیا، ہم اسے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ دوران سماعت عدالتی معاون ممتاز قانون دان علی ظفر نے مؤقف اختیار کیا کہ ایمرجنسی کا نفاذ غداری کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔

پرویز مشرف کے خلاف تفصیلی فیصلہ آتے ہی اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی

ہم نیوز کے مطابق سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواستوں میں اپنے خلاف سنگین غداری کیس اس کا فیصلہ، ٹرائل کورٹ کا قیام اور اُس وقت کی حکومت کی جانب سے دائر کردہ شکایت سمیت مخلتف اقدامات کو چیلنج کیا گیا ہے۔

عدالت عالیہ لاہور میں جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد امیر بھٹی اور جسٹس چوہدری مسعود جہانگیر پر مشتمل فل بینچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت عدالت عالیہ نے سابق صدر کے وکلا سے استفسار کیا کہ آپ کا کیس کیا ہے؟

لاہور ہائی کورٹ کو اس موقع پر بتایا گیا کہ کیس بالکل سیدھا ہے اور وہ یہ کہ خصوصی عدالت کی تشکیل غیر قانونی ہے۔

فل بینچ نے ممتاز قانون دان بیرسٹر علی ظفر کو معاونت کے لیے عدالت میں طلب کرلیا۔

دوران سماعت عدالت عالیہ کی جانب سے جنرل پرویز مشرف کے وکیل سے کہا گیا کہ آپ وقت لے لیں اور تیاری کے ساتھ آئیں۔ بینچ نے ہدایت کی کہ یہ اہم معاملہ ہے آپ اسے آسان نہ لیں۔

پرویز مشرف کے وکیل اظہر صدیق نے مؤقف اپنایا کہ اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے ذاتی وجہ پر یہ کیس بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سنگین غداری ایکٹ میں 2010 میں ترمیم کی گئی اور ایمرجنسی کو نافذ کرنے کے عمل کو بھی شامل کیا گیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اس موقع پرکہا کہ آئین معطلی اور ایمرجنسی لگانا دو مختلف چیزیں ہیں؟ سماعت کرنے والے بینچ کے رکن جسٹس محمد امیر بھٹی نے استفسار کیا کہ ایمرجنسی کیا صدر نے لگائی ہے یا جنرل نے؟

عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ لفظ چیف ایگزیکٹو کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس موقع پر جسٹس مسعود جہانگیر نے استفسارکیا کہ کیا 12 اکتوبر اور تین نومبر کے اقدامات دو مختلف چیزیں نہیں ہیں؟

دوران سماعت جب جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے دریافت کیا کہ ٹرائل کورٹ نے کس سیکشن کے تحت پرویز مشرف پر فرد جرم لگائی۔ اس پر عدالت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان نے فرد جرم پڑھ کر سنائی۔

اشتیاق اے خان نے کہا کہ فرد جرم میں لکھا گیا ہے کہ ایمرجنسی لگا کر آئین توڑا گیا۔

پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ آئین کی خلاف ورزی ہے، فواد چوہدری

عدالت نے کچھ دیر کے لیے سماعت ملتوی کی اور ساتھ ہی جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ پرویز مشرف کے وکلا فیصلہ کرلیں کہ اس کیس پر دلائل کس نے دینے ہیں؟

جب دوبارہ وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ شکایت درج ہونے کے بعد انکوائری ہوتی ہے لیکن اس کیس میں انکوائری پہلے ہوئی اور شکایت بعد میں درج ہوئی۔

جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کابینہ کو انکوائری شروع کرنے کے لیے خط لکھا، کابینہ نے اس کی منظوری دی یا اس کا جواب دیا ہو تو وہ جواب کہاں ہے؟ اس استفسارپر حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ کابینہ کا کوئی جواب ریکارڈ پر نہیں ہے۔

جسٹس مسعود جہانگیر نے وفاقی حکومت کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں نہ کابینہ کی منظوری ہے اورنہ وفاقی حکومت نے انکوائری کا کہا ہے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف جو شکایت درج کی گئی اس پر شکایت کنندہ کے دستخط بھی نہیں ہیں۔

عدالت عالیہ نے دوران سماعت استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے شکایت درج کرنے کے لیے کس کو نامزد کیا؟ اس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ سیکریٹری داخلہ کو نامزد کیا گیا تھا کہ وہ شکایت درج کریں۔

عدالت نے پوچھا کہ کیا جس شخص کے نام سے شکایت ہے، ٹرائل میں اس کا بیان ریکارڈ ہوا ہے؟ اس پر بینچ کو بتایا گیا کہ سیکریٹری داخلہ شاہد خان کو گواہی کے لیے طلب کیا گیا تھا۔

عدالت نے معلوم کیا کہ کیا پرویز مشرف کے معاملے میں انکوائری ہوئی؟ عدالتی استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس معاملے پر ایف آئی اے نے انکوائری کی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ میں کیا تھا؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کے گوش گزار کیا کہ اس رپورٹ میں پرویز مشرف کےعمل کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا۔

عدالت نے معلوم کیا کہ کیا رپورٹ خصوصی عدالت میں پیش کی گئی تھی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس پر بتایا کہ رپورٹ خصوصی عدالت میں پیش کی گئی تھی مگرفرد جرم میں اس کا ذکر نہیں ہے۔

پرویز مشرف کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ انکوائری رپورٹ کی بنیاد پر درخواست خصوصی عدالت میں بھیجی گئی تھی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اگر 342 کا بیان ریکارڈ نہ کیا گیا ہو تو ملزم کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے گوش گزار کیا کہ بیان قلمبند کیے بغیر کارروائی آگے نہیں بڑھائی جاسکتی ہے۔

عدالتی استفسار پر وفاقی حکومت کے وکیل نے بینچ کے گوش گزار کیا کہ 18 نومبر 2013 کو خصوصی عدالت کی تشکیل ہوئی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے استفسار کیا کہ پرویز مشرف کے خلاف شکایت کب درج کی گئی تھی؟ تو عدالت کو بتایا گیا کہ گیارہ دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کی گئی تھی۔

سابق صدر پرویز مشرف کو واپس نہیں لا سکتے، معاون خصوصی

عدالت نے آئندہ سماعت جمعہ کی صبح دس بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔ عدالت عالیہ کی جانب سے وکلا کو تیاری کرکے آنے کی ہدایت کی گئی ہے۔


متعلقہ خبریں