مشرف کیس: خصوصی عدالت کی تشکیل ’غیر آئینی، غیر قانونی قرار‘


لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کیس میں خصوصی عدالت کے قیام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلہ غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا۔

جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد امیر بھٹی اور جسٹس چوہدری مسعود پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پرویز مشرف کی سزا معطلی کے لیے متفرق درخواستوں پر سماعت کی۔

فیصلہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سنایا جس میں پرویز مشرف کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے کہا گیا کہ اشتغاثہ وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

فیصلے کے مطابق آرٹیکل چھ کے تحت ترمیم کا اطلاق ماضی سے نہیں  کیا جاسکتا، صرف وزیراعظم کے حکم پر کارروائی آئین کی  خلاف ورزی ہے۔

سماعت کے دوران عدالت نے کرمنل لاء اسپیشل کورٹ ترمیمی ایکٹ  1976 دفعہ 4 کو کالعدم قرار دیا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان نے سماعت کے دوران بتایا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے حوالے سے کابینہ نے فیصلہ نہیں کیا، اس حوالےسے ریکارڈ بھی موجود نہیں یہی حقیقت ہے۔

اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ یہ کیسے ہوگیا کہ عدالت کی تشکیل پانچ برس بعد ہوئی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ خصوصی عدالت کے ججز ریٹائرڈ ہوتے رہے یا ترقی کرتے رہے، خالی ہونے والی تعیناتیاں پُر کرنے کا معاملہ کابینہ کےپاس آیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ججز کی تعیناتیوں کے حوالے سے 2018 میں کابینہ سے منظوری لی گئی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق ججز کی تعیناتیاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے کی گئیں۔

عدالت نے کہا کہ سمری میں تو جسٹس نذر اکبر کی نامزدگی چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے کی گئی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس شاہد کریم کی تعیناتی کے حوالے سے بھی ایسی کوئی سمری نہیں۔

عدالت نے کہا کہ آئین یا قانون کے تحت چیف جسٹس کو ججز کی نامزدگی کاکوئی اختیار ہے، ایسا کوئی قانون موجود نہیں اور اس سے پہلے یہ روایت بھی نہیں تھی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ ٹربیونلز یا خصوصی عدالتوں کی تشکیل چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سے ہوگی۔

عدالت نے کہا کہ خصوصی عدالت کے ججز نے ہائیکورٹ کےجج کی حیثیت سے کام نہیں کیا، یہ ججز تو ٹرائل جج کے طور پر کام کررہے تھے، بتایا جائے پنجاب کے کتنے ٹربیولز اور خصوصی عدالتوں کی تشکیل چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سے کی گئی۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ایف آئی اے کی انکوائری میں کتنے افسران پیش ہوئے۔

اس کے جواب میں اشتیاق اے خان نے جواب دیا کہ جسٹس ریٹائرڈ ملک قیوم، جسٹس ریٹائرڈ میاں اجمل، محسن حفیظ، سید کمال شاہ، سردار حامد خان سمیت 45 افراد پیش ہوئے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ٹرائل میں کتنے افراد پیش ہوئے؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ٹرائل میں صرف کمال حیدر پیش ہوئے۔

عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے انکوائری میں پیش ہونے والوں میں سے تو ایک فرد بھی ٹرائل میں پیش نہیں ہوا، اس صورتحال میں انکوائری کی کیاقانونی حیثیت ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس عدالت نے واضح کیا تھا کہ خصوصی عدالت کی کارروائی کا ذکر نہیں ہوگا۔

اس پر عدالت کا کہنا تھا کہ انصاف کےتحفظ کےلئے گواہوں کاجائزہ لینا ضروری ہے۔


متعلقہ خبریں