حکومت ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام، مالی خسارہ 1922ارب تک پہنچ گیا

فائل فوٹو


اسلام آباد: مالی سال 2019-20 کی پہلی ششماہی میں حکومت ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل نہیں کر سکی اور مالی خسارہ بھی 1922 ارب تک پہنچ گیا ہے۔

صادق سنجرانی کی زیرصدارت ہونے والے سینیٹ کے اجلاس میں وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر نے بتایا کہ مالی خسارہ جی ڈی پی کا پانچ فیصد ہے۔

حماد اظہر نے بتایا کہ گزشتہ نو ماہ کے دوران حکومت نے 35 ارب روپے سے زائد مالیت کے قرضے لیے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے غیر ملکی اداروں سے لیے گے قرضوں کی تفصیلات بھی ایوان میں پیش کی گئیں جن کے مطابق 31جولائی 2015سے 31جولائی 2019 تک 25ارب 59کروڑ ڈالر کا قرض لیا گیا۔

بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے 11ارب 79کروڑ اور  بین الاقوامی کمرشل بینکوں سے 13ارب 80کروڑ ڈالر کا قرض لیا گیا۔ سینیٹ کو بتایا گیا کہ ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر 18ارب 8کروڑ ڈالر سے زائد ہیں۔

وفاقی وزیر اقتصادی امور حماد اظہر نے بتایا کہ ملک میں قرضے کا کل حجم جی ڈی پی کا 78 فیصد ہے جس کی وجہ روپے کی قدرمیں کمی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سال 2013 میں قرض کے مقابلے میں جی ڈی پی کا حجم 63.8 فیصد تھا جو 2018 میں 72 فیصد تھا۔ حماد اظہر نے یقین دہائی کرائی کہ آنے والے دنوں میں قرضے کا کل حجم جی ڈی پی کے مقابلے میں بہتر ہوگا۔

وزارت خزانہ حکام کی جانب سے سینیٹ کو بتایا گیا کہ مالی سال 20-2019 کے پہلے چھ ماہ میں وفاقی حکومت ٹیکس وصولیوں کے اہداف حاصل نہیں کر سکی۔

تحریری جواب میں بتایا گیا کہ چھ ماہ کیلئے 2198 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا لیکن حکومت اس عرصے میں 2085 ارب ہی جمع کر سکی۔

اثاثہ جات ظاہر کرنے کے آرڈیننس سے فائدہ اٹھانے والوں کی تفصیلات بھی ایوان میں پیش کی گئیں۔ وزارت خزانہ نے تحریری طور پر بتایا کہ 1لاکھ 24ہزار 587 افراد نے فائدہ اٹھایا جس سے حکومت کو ایک کھرب 23ارب سے زائد کی آمدن ہوئی۔ سینیٹ اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ گزشتہ اسیکم سے صرف 80ہزار افراد نے فائدہ اٹھایا تھا۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اعتراض اٹھایا کہ اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے اعدادوشمار مختلف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کا شاٹ فال ساڑھے تین سو ارب سے بڑھ گیا۔


متعلقہ خبریں