معاشرے کو سچائی کا آئینہ دکھانے والے ’منٹو‘ کو بچھڑے 65 برس بیت گئے

فوٹو: فائل


اسلام آباد: اپنے قلم کی بے باکی سے معاشرے کو سچائی کا آئینہ دکھانے والے سعادت حسن منٹو کو بچھڑے 65 برس بیت گئے ہیں۔

گیارہ مئی 1912 کو لدھیانہ میں پیدا ہونے والے سعادت حسن منٹو نےابتدائی تعلیم امرتسر میں حاصل کی۔

بابے نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا
’دکھ اِس بات کا ہے کہ زندگی کتوں والی ملی اور حساب انسانوں والا دینا ہو گا۔‘

انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم کا آغاز کیا مگر تعلیم مکمل کیے بغیر ہی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنا پڑا۔

سعادت حسن منٹو نے آل انڈیا ریڈیو کے لیے ڈرامے اور فیچر لکھے اور متعدد رسالوں میں کہانیاں اور مکالمے تحریر کیے، قیام  پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے۔

’یہ معاشرہ عورت کو کوٹھا چلانے کی اجازت تو دیتا ہے مگر تانگہ چلانے کی نہیں‘

منٹو کے افسانوں میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں نیا قانون، نمرود کی خدائی، سڑک کے کنارے اور بوکو اردو کو شاہکار تسلیم کیاجاتا ہے مگر ان کی وجہ شہرت ان کا بے باک اندازِ تحریر ہے جس کے باعث انہیں کئی مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

انسانی نفسیات کو موضوع بنانے والے اس افسانہ نگار نے قیام پاکستان کے بعد زندہ دلان کے شہر میں بسیرا کیا اور فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، احمد ندیم قاسمی جیسے بڑے ادیبوں کے شانہ بشانہ ادبی روایت کو مستحکم کیا۔

’نرم و نازک روح کو اپنے سینے میں دبا کر تم زمانے کی پتھریلی زمین پر نہیں چل سکو گے
جو پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹنا چاہے اسے پاگل خانے میں بند کر دو‘

سعادت حسن نے انسانی رویوں میں بے حسی اور معاشرتی بدحالی کے ساتھ جنگ آزادی  کے بعد انگریزوں کے ظلم وستم کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا جس سے ان کی شہرت کو دوام حاصل ہوا۔

منٹو کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں سب سے بڑے سول اعزاز ‘نشانِ امتیاز’ سے نوازا۔

زمانے کی تلخیوں کو الفاظ میں پرونے والا یہ عظیم افسانہ نگار 18 جنوری 1955 کو داغ مفارقت دے کر گوشہ ادب کو ہمیشہ کے لیے ویرانی میں چھوڑ گیا۔

معاشرے کو سچائی کا آئینہ دکھانے والے ’منٹو‘ کو بچھڑے 65 برس بیت گئے

سعادت حسن منٹو نے اپنی قبر کے کتبے کے لیے تحریر خود لکھی کہ یہ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوح جہاں میں حرف مقرر نہیں تھا۔


متعلقہ خبریں