قیدیوں کی کثیر تعداد ایچ آئی وی ایڈز سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا


اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر کی جیلوں میں کثیر تعداد میں قیدی ایچ آئی وی ایڈز سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

جیلوں میں قیدیوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ  نے کی۔

دوران سماعت  وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری عدالت میں پیش ہوئیں اور قیدیوں کے بارے میں رپورٹ جمع کرادی۔

شیریں مزاری کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں  جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک بھر کی جیلوں میں کل 2,192 مریض قیدی موجود ہیں۔

جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق پنجاب کی جیلوں میں 255 مرد اور دو خواتین ایچ آئی وی ایڈز کے مریض ہیں۔ سندھ میں 115 مرد اور ایک عورت کو ایچ آئی وی ایڈز کا مرض لاحق ہے۔

رپورٹ کے مطابق خیبر پختون میں 39 مرد قیدی ایچ آئی وی ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہیں۔بلوچستان کی جیلوں میں 13 قیدی ایچ آئی وی ایڈز کے مرض میں مبتلا ہیں۔

دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ ملک بھر کی جیلوں میں 65 فیصد سے زیادہ قیدی سزا یافتہ ہی نہیں ہیں۔

عدالت کو بتایا گیا کہ پنجاب میں 55 فیصد، خیبر پختونخواہ میں 71 فیصد، سندھ میں 70 اور بلوچستان میں 59 فیصد قیدیوں کے کیسز کا فیصلہ ہی نہیں ہوا ہے۔

عدالت میں جمع کی گئی رپورٹ کے مطابق پنجاب کی جیلوں میں 290 مرد اور 8 عورتیں ذہنی مرض میں مبتلا ہیں۔ سندھ میں 50، خیبر پختونخواہ میں 235 اور بلوچستان میں 11 قیدی ذہنی مریض ہیں۔

جمع کرائی گئی رپورٹ میں جیلوں میں خواجہ سراؤں کے لیے سپیشل یونٹس بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قیدیوں کے اکاونٹس تک فیملی کو رسائی نہ ہونے پرکئی خاندان مشکلات کا شکار ہیں۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اکاونٹس تک شادی شدہ قیدیوں کی بیگمات کورسائی دینے کی سفارش کی گئی ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ  نے  ریمارکس دیے کہ سزا یافتہ بیمار مجرم کو رہا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

جج نے کہا کہ مجرم کو جیل میں ڈالنے کا مقصد ہوتا ہے،امید ہے سیاسی قیادت اس حوالے سے کام کرے گی۔

شیری مزاری نے قیدیوں کی حالت زار سے متعلق رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ جن قیدیوں کے کیسز زیر سماعت ہیں اور جیلوں میں قید ہیں ان کے مسئلے کا حل ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیلسن منڈیلا  نے کہا تھا کہ کسی قوم کی گورننس کا جائزہ لینا ہے توجیلوں کی حالت دیکھیں۔ سزا یافتہ مجرم کو بھی جینے کا حق ہے۔ جرم کو جیل میں ٹارچر کے لیے نہیں ڈالا جاتا ہے۔

جج نے کہا کہ ۔نبی پاکﷺ کا فرمان ہے کہ 100 مجرم چھوٹ جائیں لیکن ایک بے گناہ کو سزا نہ ہو۔ ہرمذہب کہتا ہے کہ انسان سے انسان کے طور پر سلوک کیا جائے۔ انگریزی قوانین سے زیادہ  شریعت اور فقہ میں انسانی حقوق واضح ہیں۔ قیدیوں کے حقوق کی بات اسلامی شریعت اور فقہ میں ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد نے  شیریں مزاری کے کام کو سراہتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جو باتیں کیں اور جو کام کیا اس سے بہت چیزیں بہتر ہو جائیں گی۔

جج نے سوال کیا کہ اگر آپ کا کام مکمل ہو چکا توعدالت آرڈر پاس کر دے؟ شیریں مزاری بولیں تمام کام مکمل کر لیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا جیل میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے حوالے سے بھی کام کیا ہے؟

شیریں مزاری نے عدالت  کو بتایا کہ بچوں سے زیادتی کے کیسز پر بھی آگاہی مہم چلا رہے ہیں۔ جیل میں بچوں اور خواتین سے زیادتی کے حوالے سے بھی رپورٹ میں لکھا ہے۔

عدالت نے کیس کی سماعت 15 فروری تک ملتوی کردی۔

دوسری جانب کراچی کی چار جیلوں میں خواتین سمیت 9,404  قیدی موجود ہیں جن میں 82 فیصد قیدی معمولی جرائم میں قید ہیں۔

اس بات کا انکشاف کراچی میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور سوسائٹی فار دا پروٹیکشن آف رائٹس آف دا چائلڈ  کے اشتراک سے منعقدہ ایک تقریب میں کیا گیا۔


متعلقہ خبریں