حبیب جالب کی وہ باتیں جو کم لوگ جانتے ہیں


حبیب جالب کا نام ان لفظوں میں شامل ہے جو وقفے وقفے سے ہمارے کانوں تک پہنچتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ جالب کون تھے؟ اور ان کی وجہ شہرت کیا ہے؟

24 مارچ 1928 کو ہوشیار پور، پنجاب (موجودہ پاکستان) کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہونے والے معروف شاعر حبیب جالب کی آج 90 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔

اینگلو عریبک ہائی اسکول دہلی سے میٹرک کرنے والے جالب نے گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی سے مزید تعلیم حاصل کی۔

15 برس کی عمر میں شاعری شروع کرنے والے جالب ابتداء میں جگر مراد آبادی سے بے حد متاثر تھے۔ معاش کے سلسلے میں وہ روزنامہ جنگ اور پھر لائل پور ٹیکسٹائل مل سے منسلک رہے۔

حبیب جالب کمیونزم کے بڑے حامی تھے۔ انہوں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اُسے نتائج کی پرواہ کیے بغیر اپنے اشعار میں ڈھال دیا۔ اس کی پاداش میں وہ قیدوبند کا شکار رہے۔

قید کی دوران بھی انہوں نے شاعری کا سلسلہ جاری رکھا تاہم ان کے اشعارانتظامیہ کی جانب سے ضبط کر کے ضائع کردیے گئے۔

حبیب جالب کا پہلا مجموعہ کلام 1957 میں شائع ہوا۔

1970 میں جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں جب اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل نہیں کیا گیا تو حبیب جالب نے احتجاجاً ایک نظم لکھی۔

محبت گولیوں سے بو رہے ہو، وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے، یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

حبیب جالب نے جنرل ریٹائرڈ ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 60 کی دہائی میں اس وقت کے مارشل لاء کے خلاف بھرپور احتجاج بھی کیا۔

اُن کی شاعری آج بھی سیاسی جلسوں کے علاوہ حکومتی مشینری کے خلاف مظاہروں میں لوگوں کے جذبات کو گرمانے کے لیے پڑھی جاتی ہے۔

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے، چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے، ایسے دستور کو، صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

حبیب جالب نے ظلم، زیادتی اور ناانصافی کے خلاف جو کچھ بھی لکھا وہ زبان زدِ عام ہوگیا۔

اُٹھ کے درد مندوں کے صبح و شام بدلو بھی

جس میں تم نہیں شامل وہ نظام بدلو بھی

دوستوں کو پہچانو، دشمنوں کو پہچانو

دس کروڑ انسانو!

جالب مقامی انداز اپنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں عوامی توجہ اپنے جانب مبذول کروالیتے تھے۔ آمریت کے بعد جب پیپلزپارٹی کا پہلا دور حکومت آیا اور ملکی حالات نہ بدلے تو حبیب جالب نے کہا کہ

وہی حالات ہیں فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے

ہر بلاول ہے دیس کا مقروض، پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

حبیب جالب کی قابل ذکر تصانیف میں صراط مستقیم، ذکر بہتے خوں کا، گنبدِ بے در، کلیات حبیب جالب، اس شہرِ خرابی میں، گوشے میں قفس کے، حرفِ حق، حرفِ سرِدار، احادِ ستم شامل ہیں۔ انہوں نے مختلف فلموں کے لیے بھی شاعری لکھی۔

حبیب جالب اپنی شاعری تک ہی انقلابی نہیں تھے بلکہ ان کی انقلابی شاعری کا اثر اُن کی اپنی زندگی پر بھی تھا۔ انہوں نے اپنی علالت کے موقع پر اُس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے امداد بھی لینے سے انکار کردیا تھا۔

حبیب جالب کے نام سے 2006 میں حبیب جالب امن ایوارڈ کا اجراء کیا گیا جب کہ اُن کی وفات کے بعد 23 مارچ 2009 کو انہیں نگار ایوارڈ اور نشان امتیازسے نوازا گیا۔ حبیب جالب کی وفات 13 مارچ 1993 کو 65 برس کی عمر میں ہوئی۔


متعلقہ خبریں