موجودہ حکومت میں کسان کیلئے حالات بہت خراب ہیں، صدر پاکستان کسان اتحاد


اسلام آباد: صدر پاکستان کسان اتحاد خالد محمود کھوکھر نے کہا ہے کہ موجودہ دور حکومت میں کسان کے لیے حالات بہت خراب ہیں حکومت کی جانب سے صرف ایک فیصد سبسڈی کا اعلان کیا گیا اور وہ بھی نہیں دی جا رہی۔

ہم نیوز کے پروگرام بریکنگ پوائنٹ ود مالک میں بات کرتے ہوئے صدر پاکستان کسان اتحاد خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ کپاس ہمارے ملک میں 50 فیصد کم ہوئی جسے حکومت کہتی ہے موسم کی وجہ سے ایسا ہوا لیکن ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں دگنی کپاس ہوئی ہے۔ اگلے سال کپاس کی کاشت اور کم ہونے کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ کاشتکار سے سستا گنا لے کر چینی مہنگی فروخت کی گئی جبکہ گندم کسان سے سستی لے کر مہنگی فروخت کی گئی۔ کسان کو تو اب کھادیں بھی مہنگی مل رہی ہیں۔ ہمارے پاس کپاس کی بیج انتہائی ناکارہ ہے اور ہم زراعت میں آگے جانے کے بجائے پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔

خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ اس وقت کسان کے لیے حالات بہت خراب ہیں۔ کسانوں کو حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی صرف ایک فیصد ہے اور وہ بھی پوری نہیں دی جا رہی۔ جو کسان کے ساتھ انتہائی گھناؤنا مذاق ہے۔ کپاس کی فصل کم ہونے سے پنجاب میں غربت میں اضافہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے زراعت  کی ریسرچ کی طرف توجہ ہی نہیں ہے اور اس کے لیے بجٹ ہی انتہائی کم رکھا گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے بیج کے تھیلوں کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئیں اور جو 2013 کا بیج کہہ کر دیا گیا اس میں ایک بیج بھی 2013 کا نہیں تھا۔

خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ موجودہ حکومت نے سبسڈی مکمل طور پر ختم کر دی ہے اور کسان کے فصلوں پر اخراجات 60 فیصد تک بڑھ گئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے زراعت کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔

وزیر زراعت پنجاب ملک نعمان احمد لنگڑیال نے کہا کہ ملک میں زراعت کو کبھی بھی سنجیدہ نہیں لیا گیا اور اب پاکستان میں آنے والا زراعت کا بحران گزشتہ حکومت کی وجہ سے ہے۔ گزشتہ حکومتوں نے شوگر ملوں کو اہمیت دی جس کی وجہ سے زمینوں کا بڑا حصہ گنے کی کاشت میں چلا جاتا ہے جو دوسری فصلوں کو متاثر کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک کروڑ 65 لاکھ ایکڑ پر گندم کاشت ہوتی ہے جس میں سے صرف 17 فیصد بیج معیاری لگایا جاتا ہے باقی بیچ غیر معیاری ہوتا ہے۔ کپاس میں 40 فیصد کاشتکار معیاری بیج لگاتے ہیں جبکہ 60 فیصد غیر معیاری بیج ہوتا ہے جس کی وجہ سے فصل زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

صوبائی وزیر زراعت نے کہا کہ حکومت کسانوں کے لیے کسان کارڈ کا نیا پیکج لا رہی ہے جو ابتدائی طور پر تین اضلاع میں شروع کیا جائے گا۔ 35 لاکھ کسانوں کو رجسٹرڈ کیا جا چکا ہے جبکہ 17 لاکھ کسانوں کو رجسٹرڈ کیا جائے گا۔ کسان کارڈ میں جو کسان زمین کا مالک ہو گا وہ کارڈ کا حقدار ہو گا۔ جس میں کسانوں کی انشورنس بھی کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہماری زراعت میں سب سے بڑا مسئلہ ریسرچ کا ہے جس کی وجہ سے ہم اب بھارت سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے ملک میں ٹریڈیشنل زراعت ہی چلی آ رہی ہے جو فصل کو بہت متاثر کرتی ہے جبکہ کسان میں اعتماد کی بھی بہت زیادہ کمی ہے اور وہ فارمنگ کی طرف جانے سے گھبراتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں ماضی میں جمہوریت کے نام پرعوام کا استحصال کیا گیا، فردوس عاشق

ماہر زرعی امور انشان علی کانجی نے کہا کہ چھوٹے کسان کو کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی جس کی وجہ سے کسان انویسٹمنٹ نہیں کرتا۔ کسان کے پاس اپنی زمین پر خرچ کرنے کے لیے رقم ہی نہیں ہے وہ تو آڑھتی سے ادھار رقم لے کر اپنا سرکل چلاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کسانوں کے انجمنیں بنائیں اور کسانوں کے قانون بنائے تاکہ انہیں ایک منظم طریقے سے لے کر چلا جا سکے اور کسانوں کو بہتر رہنمائی مل سکے۔ کسان اس وقت سب سے زیادہ خسارے میں جا رہا ہے۔


متعلقہ خبریں