ہم نیٹ ورک کے 15 سالہ سفر کی کہانی، درید قریشی اور سلطانہ صدیقی کی زبانی

۔—تصویر بشکریہ ڈان۔


’’جب آزاد ٹی وی چینلز کا دور شروع ہوا تو میری والدہ سلطانہ صدیقی کو ایک نجی چینل کا انتظام سنبھالنے کی پیشکش ہوئی، اس موقع پر میں نے مشورہ دیا کہ ہمیں اپنا چینل شروع کرنا چاہیئے کیونکہ ہمارے پاس ٹیم بھی ہے اور پروڈکشن کا تجربہ بھی‘‘

یہ بات ہم نیٹ ورک کے سی ای او درید صدیقی نے ڈان اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔

اپنے ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ لمز سے تازہ گریجویٹ تھے اور نئے جذبوں سے بھرے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز شوگر ملز سے کیا  تاہم چونکہ ان کی والدہ پاکستان ٹیلی وژن میں پروڈیوسر تھیں اور وہ پی ٹی وی کا ماحول دیکھتے ہوئے جوان ہوئے تھے، اس لیے انہوں نے اس شعبے میں موجود گنجائش کو پہچان لیا تھا۔

جب پی ٹی وی نے اپنی چند سلاٹس نجی پروڈیوسرز کو فروخت کرنا شروع کیں تو وہ سلطانہ صدیقی کی ذاتی پروڈکشن کمپنی کا حصہ بن گئے۔

2000 کے ابتدائی برسوں میں انہوں نے خوب محنت کی اور حیرت انگیز رفتار سے پروڈکشن کمپنی کو مضبوط بنایا۔

وہ ہمیشہ اپنی والدہ کے قریب رہے تھے، اور شاید یہ شعبہ اختیار کرنے کے پیچھے بھی یہی جذبہ کارفرما تھا۔

۔—تصویر بشکریہ ڈان۔

ماضی کے خوابناک بادلوں میں چھپی یادیں ٹٹولتے ہوئے درید قریشی نے انکشاف کیا کہ ہم نیٹ ورک کراچی میں ان کے باتھ آئی لینڈ ہاؤس کے گیراج میں شروع ہوا۔

اس جگہ کو انہوں نے اپنی شریک حیات مومنہ درید، جو کاروبار کے مالی حالات دیکھتی تھیں، اور ٹیم کے افراد کے ساتھ مل کر چند ہی دنوں میں نئی شکل دی۔

’’میں شروع سے کاروبار کو شفاف رکھنا چاہتا تھا، اس لیے بہت جلد اسٹاک ایکسچینج پر کمپنی کو رجسٹر کرایا۔‘‘ انہوں نے کہا

ہم نیٹ ورک کے سی ای او نے بتایا کہ’ہم‘ کو ایک پبلک لسٹڈ کمپنی بنانا ان کا خواب تھا، وہ چاہتے تھے کہ اس کی اپنی ایک پہچان ہو، یہ ایسی کمپنی ہو جس میں خواتین کو اختیار ملے، جس میں بہتری کی حوصلہ افزائی کا کلچر موجود ہو اور جسے اپنی پروفیشنل روایات کی وجہ سے انڈسٹری میں پہچانا جائے۔

اگرچہ بعد میں سرمایہ میسر آنے لگا جس کے باعث وہ اپنی ایمپائر کھڑی کر سکے تاہم اس کا آغاز کچھ ایسا آسان نہ تھا۔ ابتدائی چند ماہ میں چینل مالی طور پر لڑکھڑا رہا تھا کیونکہ ایڈواٹائزرز انہیں جو رقم دینی تھی اس کی ادائیگی فوری نہیں ہو رہی تھی۔

مالی مسائل کم کرنے کے لیے اہم عہدوں پر فائز افراد کی تنخواہیں کم کر دی گئیں لیکن اس سے فرق نہ پڑا، کمپنی نے اپنے اثاثے رہن رکھے، اپنا وجود برقرر رکھا اور چند ماہ میں منافع کمانے لگے۔

۔—تصویر بشکریہ ڈان۔

درید قریشی نے بتایا کہ اس کے بعد ہم نے مڑ کر نہیں دیکھا، نیٹ ورک میں بڑھوتری ہوتی رہی، اس میں فیشن (سٹائل 360)، خوراک (مسالہ)، نیوز (ہم نیوز)، پرنٹ (نیوز لائن، گلیم، مسالہ میگزین) اور ڈیجیٹل کنزیومر (ہم مارٹ) اس کا حصہ بنتے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ مسالہ ٹی وی جنوبی ایشیاء میں اپنی طرزکا پہلا چینل ہے، اس وقت تک بھارت کے پاس بھی اس کا آئیڈیا نہیں تھا۔ جس طرح دیگر معاملات میں انہوں نے خطرہ مول لیا، اسی طرح یہ بھی ایک فوری فیصلہ تھا۔

درید قریشی نے انٹرویو کے دوران تفصیل بتائی کہ سٹائل 360 کا آغاز ایک چھوٹے کیبل چینل سے ہوا اور اس کا اثر ہر سو پھیلا لیکن یہ مسلسل خسارے میں رہا جو پانچ برسوں کے دوران 660 ملین تک جا پہنچا۔

انہوں نے نوجوانوں کے لیے ’’اوئے‘‘ کے نام سے موسیقی کے ایک چینل کا آغاز کیا اور ایک ریڈیو نیٹ ورک کا آغاز بھی کیا، یہ دونوں ہی خسارے میں رہے اور بند کرنا پڑے۔

ان کا بوجھل دل کے ساتھ کہنا تھا کہ چونکہ ہم ایک پبلک لسٹڈ کمپنی ہیں اور اپنے شیئرہولڈرز کو جواب دہ ہیں اس لیے خسارے میں جانے والا کوئی بھی کاروبار بند کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔

ہم نیوز کے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نیٹ ورک میں ایک نیوز چینل کے اضافے کا تصور چار برس پہلے کا ہے۔ یہ میری والدہ کی خواہش تھی۔

اس موقع پر سلطانہ صدیقی نے بتایا کہ ایک نیوز چینل کا اضافہ ضروری تھا تاکہ ہم نیٹ ورک کا گلدستہ مکمل ہو سکے۔

درید قریشی نے بتایا کہ لوگوں کا خیال ہے ہم نیٹ ورک کو نیوز چینل کے باعث دھچکہ لگا ہے لیکن اس کی وجہ ملک کی معاشی صورتحال ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے سسٹم میں بہت بہتری لائے ہیں، ہم نے نقصانات کم کیے ہیں، اس کے باوجود کام بہتر ہو گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل کا شعبہ ایسا ہے جس میں کوئی کساد بازاری نہیں ہے، یہ حیرت انگیز رفتار سے آگے بڑھا ہے۔

درید قریشی نے کہا کہ اس حوالے سے وہ 2020 کو، خصوصاً اس کے وسط تک، ایک بہترین سال سمجھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نیٹ ورک ایک فیملی بزنس ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ افراد اور ان کی قابلیتوں سے متعلق ہے۔

۔—تصویر بشکریہ ڈان۔

’’اپنی والدہ کے ساتھ کام کرنا بہت آسان ہے کیونکہ اپنے خیالات کا اظہار آسان ہوتا ہے، بہت بار تو ایک دوسرے کے ذہن کی لہروں کی ہم آہنگی والا معاملہ ہوتا ہے۔ میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ سمجھ جاتی ہیں اور ہمارے بیچ بہت زیادہ اعتماد کا رشتہ ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا

ہم ایوارڈز کے متعلق انہوں نے بتایا کہ اس کا انعقاد ہیوسٹن، ٹورانٹو، دبئی میں ہو چکا ہے اور اس بار ہم برطانیہ میں جا رہے ہیں۔

سلطانہ صدیقی نے بتایا کہ ان کے بیٹے کی شخصیت صرف کاروباری نہیں ہے بلکہ ان کی تخلیقی صلاحتیں بہترین افراد کی سطح کی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ بورڈ سے کئی بار کہہ چکی ہیں کہ وہ انہیں ایک سال صرف اپنے لیے مختص کرنے دے جس میں وہ کراچی فلم سوسائٹی، پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کا آغاز کر سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جسقدر ہم صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے ہیں اتنا ہی انڈسٹری پھلتی پھولتی ہے جو آخرکار ہم نیٹ ورک کیلئے بھی سود مند ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ ہر پروگرام یا ڈرامے میں مداخلت نہیں کرتیں، وہ صرف ایسے موضوعات پر نظر رکھتی ہیں جو معاشرے میں ممنوع سمجھے جاتے ہیں یا جن کے متعلق بات کرنا ضروری ہو۔

’’ہم ایسے سماجی مسائل پر غور کرتے ہیں جو لوگوں کی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں، پھر ہم ان کے اردگرد ایک کہانی تشکیل دیتے ہیں، تاہم یہ شرط ہوتی ہے کہ اس میں انٹرٹیمنٹ کا عنصر موجود ہو۔‘‘ سلطانہ صدیقی نے بتایا

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈراموں میں خواتین کو بااختیار بنانے کا تصور پیش کیا جاتا ہے، چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والی ایسی خواتین ہوں جو گھر میں رہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کے پاس تفریح کے مواقع کم ہوتے ہیں اس لیے انہیں مدنظر رکھ کر ڈرامے اور فلمیں بنانی چاہئیں۔

سلطانہ صدیقی نے بتایا کہ انہیں کئی مردوں نے کہا ہے کہ ہم ٹی وی کے ڈراموں کے باعث ان کی زندگی جہنم بن چکی ہے کیونکہ ان کے گھر کی خواتین انہی کو دیکھتی رہتی ہیں۔ یہی لوگ بعد میں انہیں کہتے ہیں کہ وہ اب نیوز نہیں دیکھتے بلکہ خوشی سے ہم ٹی وی کے ڈرامے دیکھتے ہیں۔

فلموں کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ لوگوں مختلف ذوق کے حامل ہوتے ہیں، کچھ لوگ ’لال کبوتر‘ کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ دیگر کا رجحان ’بن روئے‘ کی طرف ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مشکل حالات میں ریلیز ہونے کے باوجود دونوں ہی فلموں نے پیسہ کمایا ہے۔ ’بن روئے‘ کے وقت سینما اسکرین کم تھیں جبکہ ’سپراسٹار‘ کی ریلیز کے موقع پر معیشت لڑکھڑا رہی تھی۔ اس کے باوجود دونوں ہٹ رہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ نوجوان نسل ڈراموں کی ہدایتکاری میں بہت اچھا کام کر رہی ہے کیونکہ انہیں جدید ٹیکنالوجی سے آگاہی حاصل ہے۔

ہم نیٹ ورک کی صدر نے مزید کہا کہ شروع میں ڈھیر سارا ایگزیکٹو اور انتظامی کام کرنا پڑتا تھا جس کے باعث ہدایتکاری کے لیے وقت نکالنا مشکل تھا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 15 سالوں میں انہوں نے ایک سیریل کی ہدایتکاری کی تاہم اس دوران انتظامی معاملات کے لیے کوئی نہ کوئی شخص کاغذوں کا پلندا لے کر بار بار ان کے سر پر کھڑا ہوتا تھا۔

سلطانہ صدیقی نے کہا کہ وہ اپنے لیے نام نہیں چاہتیں، ان کے لیے اہم بات یہ ہے کہ نیٹ ورک بلند سے بلند تر مقام حاصل کرے۔

’’میں ہمیشہ اپنے بیٹے کو بتاتی ہوں کہ خطرات مول لیتے وقت محتاط رہنا چاہیئے، جب کوئی شخص پہاڑ کی چوٹی پر جا رہا ہوتا ہے تو اسے ایک کنکری سے بھی محتاط ہونا چاہیئے۔ اگر کنکری کے باعث آپ پھسل گئے تو پورا راستہ نیچے تک گرتے جائیں گے۔‘‘

 


متعلقہ خبریں