چینی کی کوئی قلت نہیں، طلب سے زائد ذخائر موجود ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب


لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے کہ پنجاب میں چینی کی کوئی قلت نہیں، طلب سے زائد ذخائر موجود ہیں۔

اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ چینی کی قیمت میں بلاجواز اضافہ کسی صورت برداشت نہیں کیاجائے گا، پنجاب حکومت اس کےاستحکام کیلئے ہرممکن اقدام کرے گی۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ  عوام کوزیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنا ہماری حکومت کا ایجنڈا ہے اور مجھے صوبے کے عوام کا مفادبے حد عزیز ہے، کسی کو من مانی نہیں کرنے دیں گے۔

انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ چینی کی قیمت میں بلاجواز اضافہ روکنے کیلئے ہر آپشن استعمال کیا جائے۔ محکمہ خوراک، صنعت اور زراعت مربوط کوآرڈینیشن کے تحت چینی کے نرخوں میں استحکام کیلئے اقدامات اٹھائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی کی پرواہ نہیں، صوبے کے عوام کو ریلیف دینے کیلئے ہر اقدام کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس پاکستان میں چینی کی پیداوار تقریباََ 55 لاکھ ٹن رہی تھی اور اس وقت بھی گنے کی کٹائی کا موسم چل رہا ہے۔

عام طور پر چینی کے سیزن میں اس کا ہول سیل ریٹ کم ہو جاتا ہے کہ لیکن اس بار 80 روپے تک فروخت ہو رہی ہے۔شوگرٹریڈرزایسوسی ایشن کے مطابق 100 کلو چینی کا تھیلا 7300 روپے سے بڑھ کر 7550 روپے کا ہوگیا ہے۔

معاملے کی نوعیت سے باخبر افراد کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے چینی کی برآمد نہ روکی تو پاکستان میں اس کی قیمت 100 روپے فی کلو تک جا سکتی ہے۔

رواں برس گنے کی کم قیمتوں پر کاشتکاروں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ کسان اتحاد کا مطالبہ تھا کہ فی من گنے کی قیمت 250 سے 300 مقرر کی جائے جب کہ مل مالکان نے فی من گنے کی قیمت 180 رکھی تھی۔ چینی کے بحران کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پنجاب میں 16 شوگرملز نے رواں برس گنے کی خریداری نہیں کی۔

کرشنگ سیزن 2018-19 سے قبل پاکستان میں 12 لاکھ ٹن اضافی چینی کے ذخائر موجود تھے اور سیزن کے دوران بھی چینی کی پیداوار تقریباََ 55 لاکھ ٹن رہی۔ کرشنگ سیزن209-20 کیلئے 30 نومبر کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تاہم دسمبر2019 تک کسی مل نے کام شروع نہیں کیا تھا جس کے نتیجہ میں کرشنگ التوا کا شکار ہوئی۔

کسان اتحاد کے مطابق شوگر ملز مالکان گنے کے کاشتکاروں کا استحصال کرنے کے لیے جان بوجھ کر کرشنگ سیزن لیٹ کرتے ہیں کیونکہ گنے کی کھڑی فصل کا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مٹھاس کا لیول زیادہ اور وزن کم ہو جاتا ہے۔

متاثرین کا کہنا ہے کہ کرشنگ سیزن کے آغاز میں تاخیر سے نہ صرف چینی کی مارکیٹ متاثر ہوتی ہے بلکہ گندم کی بوائی بھی تاخیر کا شکار ہوتی ہے۔


متعلقہ خبریں