آج کی نوجوان نسل کو کونسی مشکلات درپیش ہیں؟

آج کی نوجوان نسل کو کونسی مشکلات درپیش ہیں؟

پاکستان نے اپنے قیام سے لے کر اب تک معاشی چیلنجز کا سامنا کیا اور ہر نئی حکومت نے عوام کے لیے حالات پہلے سے بدتر ہی بنائے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ معیشت کی بگڑتی ہوئی حالت نے مراعات یافتہ (اشرافیہ) طبقے کو بالکل متاثر نہیں کیا بلکہ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مستحکم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ معیشت میں خرابی سب سے زیادہ متوسط طبقے کو متاثر کرتی ہے حالانکہ سب سے زیادہ ٹیکس انہی سے جمع کیا جاتا ہے۔ ملک کی خراب معاشی صورتحال کے باعث متوسط طبقہ خود کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوتا جا رہا ہے۔

اگر ہم تعلیمی نظام کی بات کریں تو ملک کے تعلیمی معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہر کی ہر گلی میں کم سے کم دو یا تین پرائیویٹ اسکول کرائے پر لیے ہوئے گھروں میں تعمیر ہوتے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسکول شروع کرنا بچوں کی ذہنی اور اخلاقی نشونما کے لیے ایک ادارہ کے بجائے پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ اور باقاعدہ کاروبار بن چکا ہے۔

مزید یہ کہ پاکستانی تعلیمی نظام ہمارے معاشرے کے لیے مایوسی کی سب سے بڑی وجہ بن چکا ہے۔ بہترین تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے لیے جو تعلیمی ادارے بنائے گئے ہیں وہ اب اساتذہ اور انتظامیہ کی منفی سیاست کی وجہ سے معاشرے میں جانے جاتے ہیں۔ عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال خان کا معاملہ آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔ علاوہ ازیں ان اداروں میں سہولیات کی کمی اور درس و تدریس کا فرسودہ طریقہ کار ایسے فارغ التحصیل افراد پیدا کرتا ہے جن میں بنیادی صلاحیتوں کا فقدان ہوتا ہے۔ اسی لیے جب یہ لوگ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ایک نئی دنیا ان کی منتظر ہوتی ہے جس کے لیے انہیں تعلیمی اداروں میں تیار نہیں کیا گیا ہوتا۔ یہی ادارے متوسط طبقے کا انتخاب ہوتے ہیں اور یہاں کے تعلیم یافتہ افراد اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کا ایک قلیل حصہ مراعات یافتہ طبقے پر مشتمل ہے جن کا مضبوط معاشی پسِ منظر تعلیم کے دوران مالی اعانت فراہم کرنے کا ضامن ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کا مستحکم سماجی پس منظر کیریئر بنانے میں بھی ممد و معاون ثابت ہوتا ہے، بھاری معاوضے کی ملازمت ہو یا کاروبار میں بڑی سرمایہ کاری، دونوں کے لیے آسانی ہی آسانی ہوتی ہے۔

بڑے اداروں کے مالکان ملازمین کا انتخاب کرتے وقت ان کی انفرادی خصوصیات کے بجائے بڑے بڑے تعلیمی اداروں کی اسناد پر یقین کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس میدان میں بھی طبقہ اشرافیہ فائدے میں رہتا ہے کیونکہ بڑے تعلیمی اداروں کے اخراجات صرف وہی ادا کر سکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اعلیٰ درجے کی یونیورسٹیز یہ درجہ بہت محنت کے بعد حاصل کرتی ہیں لیکن کسی بھی شعبے میں مہارت رکھنے والے نوجوانوں کے بجائے یونیورسٹی کے نام پر ملازمت دینا غیر منصفانہ ہے۔ اس عمل سے اوسط درجے کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلبا کو انٹرویو کے مرحلے تک پہنچنے کا موقع بھی نہیں ملتا ہے۔ اس سب کے بعد ایک امید رہ جاتی ہے جو انہیں ہار نہیں ماننے دیتی اور وہ ہے سی ایس ایس کے امتحانات۔ ’سی ایس ایس کرو اور زندگی سنوارو‘؛ ہر متوسط خاندان میں یہ ایک عام خیال ہے۔ تاہم ایس ایس پی ابرار نیکوکارا کی حالیہ خودکشی کیس نے مباحثوں کے لیے ایک اور سمت کھول دی ہے۔

بہت سی یونیورسٹیاں امتحانات میں اعلیٰ درجے حاصل کرنے والے طلبہ کو وظائف کی پیش کش کرتی ہیں، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لیے یہ امید کی آخری کرن رہ جاتی ہے۔ لیکن یہاں سے تعلیم یافتہ نوجوان بہت بار ملازمت حاصل نہیں کر پاتے۔ یونیورسٹی کی سیاست ، نسلی امتیاز اور بے روزگاری ان چند وجوہات میں سے ایک ہیں جس کی وجہ سے کئی طلبہ نے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ اسلام آباد کی اعلیٰ سطح کی نجی یونیورسٹیوں کے طلباء ثاقب حسین ہاکرو اور اعزاز علی بہت سوں میں سے وہ دو نام ہیں جو اس معاشرے کی بے راہ روی کو برداشت نہیں کر سکے اور خود کو موت کے حوالے کر دیا۔

پاکستان نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ کی 2017 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق مجموعی افرادی قوت میں زیادہ تر نوجوانوں کو ملازمت کی کم اور بے روزگاری کی اعلیٰ شرح کا سامنا ہے۔ ایک جانب تعلیمی ادارے متوسط طبقے کے افراد کی جیبیں خالی کرنے پر تلے ییں تو دوسری جانب ملازمت کا بازار ایک ایسی دنیا ہے جہاں امتیازی سلوک بالکل نئی سطح پر شروع ہو جاتا ہے۔ سرکاری اداروں میں ایک دور ایسا بھی تھا جب ملازمین کی تقرری میرٹ پر کی جاتی تھی لیکن اب اقربا پروری نے اٰس منصفانہ ثقافت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سرکاری عہدوں پر فائز افسران کی اکثریت نے اپنے عہدوں کے لیے مطلوبہ اہلیت یا مہارت کا تعین کیے بغیر اپنے حوالوں کا استعمال کیا ہے۔

دوسری جانب، نجی شعبوں نے بھی اقربا پروری کا وہی کلچر اپنایا ہوا ہے۔ مضبوط حوالہ دینے سے کسی کو آسانی سے ملازمت مل جاتی ہے۔ اکثر اوقات یہی ملازمین زیادہ تنخواہ لیتے نظر آتے ہیں اور مشقت والا کام کم تنخواہ لینے والے ملازمین سے کراتے ہیں۔

جہاں کم تنخواہ والی ملازمتوں اور بے روزگاری کا کلچر فروغ پا جائے وہاں کم اجرت والی آمدنی یا بے روزگاری کی وجہ سے ہونے والی خودکشیوں پر حیرت نہیں ہوتی۔ کراچی ، لاڑکانہ ، خیبر پختون خوا سمیت کئی بڑے چھوٹے شہروں میں خودکشی کے حالیہ واقعات، ریاست کی غیر منصفانہ پالیسیوں کے نتائج کی بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔

پاکستان نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ (2017) کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2001 سے 2002 میں غیر رسمی کارکنوں کی تعداد 64 فیصد تھی جو کہ 2012 سے 2013 میں بڑھ کر 73 فیصد ہوگئی ہے۔ اس بڑھتی ہوئی شرح سے یہ ظاہر ہے کہ استحصال کا شکار ہونے والے نوجوان ناقص تعلیمی پرورش اور روزگار کے ناقص مواقع کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں۔

بات چاہے نوجوان ذہنوں کے لیے بہتر اور اعلیٰ تعلیمی ماحول پیدا کرنے کی ہو یا گریجویٹس کے لیے روزگار کے محفوظ اور ترقی پسند مواقع فراہم کرنے کی، ہمارے پالیسی ساز بڑی حد تک ناکام ہو چکے ہیں۔  کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار ریاست کے فراہم کردہ معیار تعلیم پر ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں، معیاری تعلیم کا حصول صرف اشرافیہ کی ملکیت بن چکا ہے۔  روزگار کے بہتر مواقعوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ریاست اپنے تمام شہریوں کو بلا امتیاز معیاری اور مساوی تعلیم کی فراہمی کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اگر پاکستانی ریاست راہِ راست پر چلنا چاہے اور بہتر روزگار اور تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے تو ایسا کرنا بہت دشوار نہیں ہے۔ کم تعلیم یافتہ افراد کو فیصلے یا پالیسی سازی کے اختیارات دینے کے بجائے حکومت کو اہل افراد میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے اور کچھ ہی وقت میں اس کے مثبت نتائج خود بہ خود دکھائی دینے لگیں گے۔


متعلقہ خبریں