بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات اور حکومتی اقدامات

باپ کے وحشیانہ تشدد سے معصوم بچی جاں بحق

بچوں کے ساتھ زیادتی کا جو سلسلہ قصور کے بھیانک واقعے سے شروع ہوا، وہ آج تک نہ تھم سکا۔

2015 میں قصور میں منظرِ عام پر آنے والے بچوں کی فحش ویڈیوز کے واقعہ نے پوری قوم کو غم و غصہ میں مبتلا کر دیا تھا۔ اس واقعہ میں ملوث گروہ نے 400 نابالغ بچوں کی نازیبا ویڈیوز بنائیں اور پھر پیسوں کی لالچ میں ان کے اہلِ خانہ کو بلیک میل کرتے رہے۔

کہنے کو قصور زیادہ قدامت پسند شہر نہیں شمار ہوتا۔ ملک کے دوسرے حصوں کے برعکس یہاں خواتین رات میں چہل قدمی کرتیں اور ریستوران میں بیٹھی بھی نظر آتی ہیں۔ مگر قصور کے پولیس حکام کے مطابق یہاں بربریت عروج پر پہنچ چکی ہے۔ زیادتی کرنے والے اپنے شکاروں کا گلا گھونٹ کر ان کی لاشوں تک کو پھینک دیتے ہیں۔

قصور کے رہائشی اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ یہاں جنسی زیادتی ایک عام مظہر ہے۔ جو بچہ گھر سے باہر نکلتا ہے اس کا بڑے لڑکوں کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہونا روزمرہ کی بات ہے۔

ایک معروف این جی او، ساحل، کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2015 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 3768 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان واقعات کی تعداد 2016 میں 10 فیصد بڑھ کر 4139 ہو گئی۔

سال 2017 میں 3445 جبکہ 2018 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 3832 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے تقریباً 59 فیصد واقعات بچیوں کے ساتھ پیش آئے جبکہ تقریباً 41 فیصد بچے اس کا شکار ہوئے۔

اس رپورٹ کے مطابق 2018 میں پاکستان میں روزانہ 10 سے زائد بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ان واقعات کی ہر سال کے حساب سے بڑھتی ہوئی تعداد یہ ظاہر کرتی ہے کہ 2019 میں یہ اعداد و شمار بہت حد تک تجاوز کر جائیں گے۔

بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے بیشتر واقعات میں زیادتی کرنے والے بچوں کے قریبی لوگ ہوتے ہیں جن میں رشتہ دار اور پڑوسی شامل ہیں۔ ان واقعات میں ہمارے معاشرے کے معتبر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ملوث ہوتے ہیں جن میں مولوی، پولیس اہلکار اور اساتذہ سرِفہرست ہیں۔

جنسی استحصال کی مختلف اقسام ہیں جن میں عصمت دری، جنسی رابطہ جیسے چھونے، زبردستی بوسہ لینا یا رگڑنا، گندے یا نامناسب لطیفے اور کہانیاں سنانا، بچوں کو کپڑے اتارنے پر مجبور کرنا یا مدعو کرنا، دوسروں کو بچوں کے ساتھ جنسی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھنا یا کسی بچے کو جنسی حرکتیں دیکھنے کے لئے مجبور کرنا، جنسی طور پر نامناسب رویے کی حوصلہ افزائی کرنا اور بچے کو مستقبل میں جنسی رابطے کے لئے تیار کرنا شامل ہیں۔

2013-2014 کی مردم شماری کے مطابق 55 ملین افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ عموماً انہی خاندانوں کے بچے ان درندوں کا شکار بنتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اس دور میں غریب والدین کے لئے یہ ایک نئی پریشانی بن چکی ہے۔ ایک غریب شہری روزی کمانے کے لئے محنت کرے یا اپنے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والوں سے حفاظت کرے؟

پاکستان کی حکومت بچوں کے ساتھ جنسی استحصال پر کارروائی کرنے میں نہایت کاہلی کا ثبوت دے چکی ہے۔ زینب امین قتل کیس 4 جنوری 2018 کو پیش آیا اور ملک بھر میں بھر پور احتجاج اور تنقید کے بعد قاتل کو 17 اکتوبر 2018 کو پھانسی دی گئی۔ یاد رہے کہ قومی اسمبلی نے زینب الرٹ بل کی منظوری اس واقعے کے پورے 2 سال بعد دی۔ اس بل کے تحت بچوں سے جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کو دی جانے والی زیادہ سے زیادہ سزا ایک لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ عمر قید ہوگی جبکہ کم سے کم سزا دس سال ہوگی۔ وہ اسلامی ممالک جہاں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی پر پھانسی کی سزا دی جاتی ہے وہاں اس جرم کی شرح نسبتاً کم ہے۔

ان مسائل سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اکتوبر 2019 میں متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ “میرا بچہ الرٹ” کے نام سے ایک موبائل ایپ بنائیں جو متاثرہ بچوں کے بارے میں تمام صوبائی انسپکٹر جنرل آف پولیس اور دیگر اعلی عہدیداروں کو براہ راست اطلاع دے سکے۔ مقدموں کی پیشرفت کی نگرانی کے لئے میرا بچہ الرٹ کو پاکستان سٹیزن پورٹل سے منسلک کیا جائے گا۔

دوسری جانب حکومت کے پاس متاثرہ بچوں کی کوئی رجسٹری موجود نہیں ہے۔ ساحل این جی او کی نمائندہ، سدرہ ہمایوں کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس بھی اُن سے متاثرین سے متعلق ڈیٹا کا مطالبہ کرتا ہے۔ چند حکومتی ادارے جیسے نیشنل کمیشن برائے چلڈرن ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ اور نیشنل چائلڈ پروٹیکشن سینٹر بھی بیوروکریٹس کے ماتحت ہیں اور قانونی مینڈیٹ کی کمی کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ حکومتی عہدیداران کے بیانات صرف الفاظ تک محدود ہیں۔


متعلقہ خبریں