پی آئی اے سربراہ ایئرمارشل ارشدملک کی تعیناتی پر ادارے آمنے سامنے

فائل فوٹو


اسلام آباد: قومی ایئرلائن کے سربراہ ایئرمارشل ارشدملک کی تعیناتی پر پی آئی اے اور آڈیٹر جنرل پاکستان کے درمیان بیانات کی جنگ چھڑ گئی ہے۔

آڈیٹرجنرل پاکستان نے حکومت کو سفارش کی ہے کہ ارشد ملک کی تعیناتی غیرقانونی ہے اس لیے ان کو فوری طور پر عہدے سے ہٹایا جائے اور اس تقرری کی تحقیقات غیرجانبدار ادارے سے کرائی جائے۔

ایوی ایشن ڈویژن تحقیقات کرے کے ارشد ملک کی غیر قانونی تقرری کا ذمہ دار کون ہے۔ ایئرمارشل ارشد ملک نے تقرری کے 8 ماہ کے دوران 30 لاکھ روپے الاؤنس وصول کیا۔ سی ای او کو پی آئی اے سے ملنے والی تمام مراعات اور الاونس واپس لئے جائیں۔

آڈیٹرجنرل نے الزام لگایا ہے کہ بورڈ آف ڈائریکٹر نےغیرملکی سی ای او کی طرح اس تقرری میں بھی غلطی کی۔

پی آئی اے نے آڈیٹرجنرل کی رپورٹ پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہےلہذا اس پر رائے نہیں قائم کی جاسکتی۔

سپریم کورٹ سے اس پر فیصلہ ہوگا جس کا احترام آئین پاکستان کے تحت سب پر لازم ہے۔ عدالت کے حکم کے تناظر میں سی ای او پی آئی اے نے پہلے ہی اپنے اختیارات بورڈ آف ڈائریکٹرز کو سونپ چکے ہیں۔

ترجمان پی آئی اے نے کہا کہ ایئر مارشل ارشد ملک کو مقابلتی عمل کے تحت بورڈ آف ڈائریکٹر نے سی ای او نامزد کیا تھا تاہم یہ معاملہ اب عدالت عظمی میں ہے۔

پی آئی اے آڈیٹر جنرل کی رپورٹ اور انکی گزارشات کا احترام کرتی ہے لیکن کچھ موقع اور مفاد پرست عناصر آڈٹ کو گمراہ کرکے رپورٹس بنوا رہے ہیں جس کی تصدیق ضروری ہے۔ ایسی رپورٹس کا مقصد سپریم کورٹ کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے تاہم عدلیہ اس سے بالاتر ہے۔

خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے دسمبر2019 میں پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روکتے ہوئے ادارے میں نئی بھرتیوں، ملازمین کو نکالنے اور تبادلوں پر بھی پابندی لگا دی تھی۔

ایئرمارشل ارشد ملک کے خلاف ایئرلائنزسینئر اسٹاف ایسوسی ایشن (ساسا) کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔ درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ پی آئی اے کے سربراہ تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتے اور ان کا اس شعبے کے متعلق کوئی تجربہ نہیں۔

پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (پی آئی اے) کے چیف ایگزیکٹو آفیسرائیرمارشل (ر) ارشد ملک نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور سپریم کورٹ نے بھی سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔


متعلقہ خبریں