ورچوئل رئیلٹی نے انتقال کر جانے والی بیٹی سے ماں کی بات کرا دی


کورین چینل پر چلنے والا نو منٹ کا کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے جس میں ایک ماں نے ورچوئل ریلٹی کے ذریعے اپنی اس بیٹی سے گفتگو کی جو 2016 میں فوت ہو گئی تھی۔

یوٹیوب پر اپ لوڈ ہونے والا یہ کلپ ایک کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ دیکھا جا چکا ہے اور اس پر شدید بحث ہو رہی ہے۔

ناایون نامی بچی 2016 میں لیوکیمیا کی وجہ سے فوت ہوگئی تھی اور اب ایک کورین ٹیلی وژن نے ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے ماں کی بیٹی سے ملاقات کرا دی۔

ویڈیو کی شروعات میں ناایون ایک پارک میں کھیل کود میں مصروف ہے، اس دوران وہ ماں کی طرف بھاگ کر آتی ہے اور پوچھتی ہے کہ”امی، آپ کہاں تھیں؟ میں نے آپ کو بہت یاد کیا۔ کیا آپ نے مجھے یاد کیا؟” اس کی ماں جنگ جی سنگ بہتے آنسوؤں کے ساتھ اپنی بیٹی کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس کے بال سنوارتی ہے اور اسے کہتی ہے کہ، “میں نے آپ کو بہت یاد کیا ہے، نیون”۔

لیکن حقیقت میں، جنگ ایک اسٹوڈیو میں گرین اسکرین کے سامنے کھڑی تھی اور ورچوئل رئیلٹی سے تیار کردہ ہیڈ فون اور چھونے سے حساس دستانے پہنے ہوئے تھے جبکہ اس نے گلے میں ایک لاکٹ پہن رکھا تھا جس میں اس کی بیٹی کی راکھ تھی۔ دوسری جانب نیون کے والد اپنے تین بچوں سمیت آنسو پونچھتے ہوئے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔

ویڈیو کے دوران جنگ اور ناایون ایک ساتھ میز پر بیٹھے اور ناایون کی سالگرہ منانے کے لئے “سالگرہ کی مبارکباد” گاتے رہے۔ موم بتیاں بجھاتے ہوئے ناایون نے سالگرہ کی خواہش کی کہ میں چاہتی ہوں کہ میری امی نا روئیں۔

اس ویڈیو پر بڑے پیمانے پر تنقید شروع ہو گئی تاہم بہت سے افراد نے ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے بچھڑ جانے والوں کے ساتھ ملاقات کو مثبت بات قرار دیا ہے۔

منہوا براڈکاسٹنگ کارپوریشن (ایم بی سی) کی اس دستاویزی فلم، آئی میٹ یو، کے سامنے آنے کے بعد بہت سے ناظرین نے جنگ کے لئے ہمدردی اور تعاون کی پیش کش کا اظہار بھی کیا۔ ایک نے کہا، “میری والدہ کا غیر متوقع طور پر دو سال قبل انتقال ہوگیا تھا اور میری خواہش ہے کہ میں بھی ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے ان سے مل سکوں”۔

لیکن میڈیا کالم نگار پارک سانگ کا کہنا ہے کہ اس دستاویزی فلم میں انسانی درد کا استحصال کیا گیا ہے۔ انہوں نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو بتایا، “یہ بات قابل فہم ہے کہ ایک غم زدہ ماں اپنی مرحوم بیٹی سے ملنا چاہتی ہے۔ میں بھی ایسا ہی کروں گا۔ مسئلہ اس میں ہے کہ براڈ کاسٹر نے ناظرین کی ریٹنگز کی خاطر ایک ایسی کمزور والدہ کا فائدہ اٹھایا ہے جس نے اپنے بچے کو کھویا ہے”۔

انیوں نے مزید بھی کہا کہ اگر فلم بنانے سے پہلے بچی کی ماں کی رہنمائی کی جاتی تو کوئی بھی ماہرِنفسیات اس کی منظوری نہ دیتا۔

اس فلم کو بنانے میں آٹھ مہینے کا عرصہ لگا اور فلم بنانے والوں کا اصرار تھا کہ اس کا مقصد جنوبی کوریا میں ورچوئل رئیلٹی کو فروغ دینے کے بجائے بچی کے خاندان کو تسلی دینا تھا۔

ایک پروڈیوسر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس ٹیکنالوجی نے اپنے پیاروں سے اُن کی موت کے بعد بھی ملاقات کرنے کا ایک نیا طریقہ پیش کیا۔

جنگ نے اپنی بیٹی کا نام اور تاریخ پیدائش کا ٹیٹو اپنے بازو پر لگایا ہوا ہے۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے اس طرح کے پروگرامز سے اُن لوگوں کو تسلی دی جا سکتی ہے جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے۔

جنگ نے اپنے بلاگ میں بھی اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا، “اگرچہ یہ بہت ہی مختصر وقت تھا مگر اس لمحے میں واقعتاً میں بہت خوش تھی”۔


متعلقہ خبریں