آزادی رائے پر پابندی نہیں ہونی چاہیے، سابق وفاقی وزیر اطلاعات


کراچی: سابق وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا ہے کہ آزادی رائے پر پابندی نہیں ہونی چاہیے لیکن سوشل میڈیا کو بھی ایک دائرے میں لانے کی ضرورت ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر اطلاعات جاوید جبار نے کہا کہ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اندرون حکومت بھی مشورہ نہیں کیا جاتا۔ کابینہ اجلاس سے قبل سمری جاری ہوتی ہے جو تمام وزارتوں کو ملتی ہے لیکن لگتا ہے موجودہ حکومت میں ایسا نہیں ہو رہا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ ’’آزادی اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور اسے پابند کرنی کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں کچھ ایسے عناصر ہیں جو آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

جاوید جبار نے کہا کہ سوشل میڈیا پر چلنے والا آدھا جھوٹ اور آدھا سچ بھی بہت نقصان دیتا ہے۔ فیک نیوز اور دیگر غیر اخلاقی معاملات کو روکنے کے لیے سوشل میڈیا پر نظر رکھنا پڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی منتخب حکومتوں نے آزادی رائے کے اظہار پر ہر بار ہی پابندیاں عائد کیں جبکہ میڈیا کو آزادی ملی تو وہ آمرانہ دور میں ملی۔ اس وقت بھی میڈیا کے کچھ حصے بہت آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ دونوں جانب سے توازن کی ضرورت ہے۔

سابق وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ پابندیاں لگائی ہیں لیکن وہاں معیشت پر کوئی فرق نہیں پڑھا بلکہ معیشت بہت زیادہ مضبوط ہوئی اور آگے بڑھ رہی ہے۔ آزادی رائے پر پابندی لگانے کی شدید مذمت کرتے ہیں لیکن مبالغہ آرائی بھی نہیں ہونی چاہیے۔

سوشل میڈیا ایکٹوسٹ فریحہ عزیز نے کہا کہ حکومت صحافیوں کو بھی ہراساں کر رہی ہے کبھی مقدمے قائم کیے جا رہے ہیں اور کبھی گرفتاری ہو رہی ہے۔ انتہا پسندی کو دنیا بھر میں پابند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں سوشل میڈیا قوانین کا مقصد اظہار رائے، سیاسی اختلافات کو دبانا نہیں، وزیر اعظم

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں وہ تو قانون سے ہٹ کر آگے جا رہے ہیں۔ کیا پاکستان سوشل میڈیا پر وہی پابندیاں لگانا چاہتا ہے جو بھارت نے کشمیر پر لگائی ہوئی ہیں ؟

فریحہ عزیز نے کہا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں پر لگائی جانے والی پابندیوں سے نقصان کمپنیوں کو نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت کو ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں حکومت کو موقع دینے والے اب نجات کی دُعائیں مانگ رہے ہیں، سینیٹر سراج الحق

سوشل میڈیا ایکٹوسٹ صدف بیگ نے کہا کہ سوشل میڈیا کے رولز قانون سے بہت آگے چلے جا رہے ہیں۔ ایف آئی اے نے دو سال پہلے ہی سوشل میڈیا کے رولز وضع کر دیے تھے۔ سوشل میڈیا پر پابندوں کی مشاورت اس وقت کی جا رہی ہیں جب رولز لاگو ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے جبکہ پہلے ہی قانون لاگو کر دیے گئے ہیں۔

انہوں ںے کہا کہ حکومت قانون کو لاگو کرنے کے بجائے انہیں بنانے پر ہی زور دیتی ہے جس کی وجہ سے قانون پر عمل نہیں ہو پاتا۔ ہمارے قانون میں اظہار آزادی کی بہت زیادہ تفصیلات موجود ہیں جن کے ہوتے ہوئے الگ سے سوشل میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیاں سمجھ سے باہر ہیں۔


متعلقہ خبریں