سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ہوجائیں ہوشیار: آئی جی پنجاب نے مراسلہ جاری کردیا


لاہور: پنجاب پولیس کے سربراہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس استعمال کرنے والے افسران و اہلکاروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اپنی وردی (یونیفارم) والی تصاویر ہٹا دیں۔

سوشل میڈیا قوانین میں ابہام موجود ہے، سیکرٹری برائے قانون و انصاف

ہم نیوز کے مطابق اس ضمن میں جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر نہیں ہونی چاہئیں جو یونیفارم میں ہوں۔ انہوں ںے مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اپنی تصاویر ہٹادی ہیں۔

آئی جی کی جانب سے تمام آر پی اوز اور سی پی اوز کو بھیجے جانے والے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر محکمے کا نام بھی استعمال نہیں کیا جائے گا۔

ہم نیوز کے مطابق آئی جی کی جانب سے بھیجے گئے مراسلے میں واضح طور پر کہا ہے کہ خلاف ورزی کی صورت میں سخت کارروائی کی جائے گی۔

دلچسپ امر ہے کہ آئی جی پنجاب کی طرح کا مراسلہ کسی دوسرے صوبے کے انسپکٹر جنرل آف پولیس نے جاری نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ کیا اسی طرح کے قواعد و ضوابط کا اطلاق دیگر صوبوں کے پولیس اہلکاروں پر بھی ہوگا یا نہیں؟ اوریہ کہ کیا درج بالا احکامات وفاقی وزارت داخلہ کی ہدایت پر دیے گئے ہیں یا نہیں؟

وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے قوانین بنالیے ہیں جن کی کابینہ نے منظوری بھی دے دی ہے۔ نئے قوانین کے تحت سماجی رابطوں کی تمام عالمی میڈیا کمپنیوں کی تین ماہ میں پاکستان کے اندر رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی ہے۔

وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹک ٹاک اور ڈیلی موشن سمیت دیگر تمام کمپنیوں کو آئندہ تین ماہ کے اندر اپنی رجسٹریشن کرانا ہوں گی۔ سماجی رابطوں کی تمام کمپنیوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ آئندہ تین ماہ میں اسلام آباد کے اندر اپنا دفتر لازمی قائم کریں۔ کمپنیوں کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ پاکستان میں رابطہ افسربھی تعینات کریں۔

سوشل میڈیا قوانین کا مقصد اظہار رائے، سیاسی اختلافات کو دبانا نہیں، وزیر اعظم

سماجی رابطوں کی تمام کمپنیوں کے لیے یہ بھی لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنا ڈیٹا سرور بنائیں گی۔ نئے قوانین کے تحت یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا پربنائے جانے والے مقامی پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کرانا بھی لازمی ہو گی۔

حکومتی اقدامات کے نتیجے میں قومی اداروں اور ملکی سلامتی کے خلاف بات کرنے والوں کے خلاف کارروائی ممکن ہوسکے گی۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نیشنل کو آرڈی نیشن اتھارٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

نیشنل کو آرڈی نیشن اتھارٹی ہراسانی، اداروں کو نشانہ بنانے اور ممنوعہ مواد کی شکایت پر اکاؤنٹ بند کرنے کی مجاز ہوگی اور قواعد پر عمل نہ کرنے کی صورت میں 50 کروڑ روپے تک کا جرمانہ کرسکے گی۔

سماجی رابطوں کی کمپنیوں کے خلاف اس صورت میں کارروائی بھی ممکن ہوگی کہ اگر وہ ویڈیوز نہ ہٹائیں۔ اس ضمن میں یہ بھی طے کردیا گیا ہے کہ اگر کمپنیاں تعاون نہیں کریں گی تو ان کی سروسز بھی معطل کردی جائیں گی

پاکستان بار کونسل نے وفاقی کابینہ کی جانب سے منظور کیے جانے والے سوشل میڈیا قوانین کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ  نئے سوشل میڈیا قوانین دراصل میڈیا کو چپ کرنے کا طریقہ ہیں۔

سوشل میڈیا کمپنیوں کی رجسٹریشن کا معاملہ معاشی ہے، فواد چوہدری

پاکستان بار کونسل کے مطابق حکومت سوشل میڈیا قوانین سے شہریوں کے ڈیجیٹل حقوق ختم کر رہی ہے جب کہ آئین کی شق 19 اظہار رائے کا حق دیتی ہے۔

پاکستان بار کونسل نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے مجوزہ سوشل میڈیا قوانین واپس نہ لیے تو وکلا بھرپور مزاحمت کریں گے۔


متعلقہ خبریں