شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی ضمانتیں منظور


اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کی درخواستِ ضمانت منظور کرلی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس لبنیٰ سلیم پرویز پر مشتمل بینچ نے شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالت نے ضمانتیں ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض منظور کرتے ہوئے ن لیگی رہنماؤں کی رہائی کا حکم دیا۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے صغریٰ بی بی کیس میں کہا ہے کہ کسی کو بغیر متضاد مواد کے گرفتار نہیں کیا جا سکتا، نیب کی کسی ملزم کو گرفتار کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟

مزید پڑھیں: شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ملتوی

انہوں نے کہا کہ بہت سے ملزمان ایسے ہیں جن کا ٹرائل چلتا ہے لیکن نیب انہیں گرفتار نہیں کرتا، جو شخص انکوائری اور تفتیش میں تعاون کر رہا ہے اس کو گرفتار کرنا کیوں ضروری ہے؟

انہوں نے کہا کہ یہ سوالات ہیں نیب ان پر عدالت کو مطمئن کرے، اگر نیب عدالت کو مطمئن نہیں کر سکتا تو یہ غیر معمولی صورتحال ہو گی۔

چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ احسن اقبال اپنے حلقے کے عوام کی نمائندگی تو کر رہے ہیں نا، وہ اور شاہد خاقان عباسی اپنے حلقے کے عوام کی نمائندگی سے نااہل تو نہیں ہوئے، نیب غیر ضروری طور پر ان کو گرفتار کرکے انکے حلقے کے عوام کو نمائندگی سے محروم کرتا ہے۔

پراسیکیوٹر نیب کا اس موقع پر کہنا تھا کہ وعدہ معاف گواہ پلی بارگین کر کے پیسے واپس کرتا ہے پھر چیئرمین نیب اس کا کیس عدالت کو بھیجتے ہیں۔ اس پر احسن اقبال کے وکیل نے کہا کہ یہ تو اغواء برائے تاوان ہے کہ بڑے بڑے ڈاکو پیسے دے کر نیب سے جان چھڑا لیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب کے مجموعی طور پر کتنے ملزمان ہیں؟ کیا سب کو گرفتار کرلیا؟ نیب عدالت نہیں، صرف تحقیقاتی ادارہ ہے جو شواہد پر عدالت میں پراسیکیوٹ کرسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شاہد خاقان عباسی کی درخواست جمع

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے طے کر دیا ہے کہ غیر ضروری کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا، اب نیب کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملزمان کے خلاف متضاد مواد اور آمدن اور اثاثوں میں تضاد بتائے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی ادارہ بتا دے کہ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کو حراست میں رکھنا کیوں ضروری ہے، نیب کے پاس گرفتاری کے اختیارات لامحدود نہیں ہیں۔

شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کیخلاف کیسز

شاہد خاقان عباسی نے ایل این جی کیس جبکہ احسن اقبال نے ناروال اسپورٹس سٹی کیس میں درخواست ضمانت دائر کر رکھی تھی۔

سابق وزیراعظم کو نیب نے ایل این جی کیس میں جولائی 2019 کو گرفتار کیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایل این جی کی درآمد اور تقسیم کا 220 ارب روپے کا ٹھیکہ دیا جس میں وہ خود حصہ دار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیب نے احسن اقبال کو گرفتار کر لیا

نیب کراچی نے 19 دسمبر 2016 کو علاقائی بورڈ کے اجلاس میں یہ کیس میرٹ پر بند کردیا تھا تاہم اس بار نیب راولپنڈی نے  دوبارہ تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔

بعدازاں  3 دسمبر 2019 کو نیب نے احتساب عدالت میں ایل این جی ریفرنس دائر کیا تھا، جس میں شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر شیخ عمران الحق اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے سابق چیئرمین سعید احمد خان سمیت 10 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔

دوسری جانب احسن اقبال پر الزام ہے کہ انہوں نے اسپورٹس سٹی تعمیر کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔ قومی احتساب بیورو کا مؤقف ہے کہ اسپورٹس سٹی کی تعمیر میں پاکستان اسپورٹس بورڈ نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے خلاف قانون تین ارب روپے کا منصوبہ نارووال میں شروع کیا۔


یہ فوری خبر ہے۔ مزید تفصیلات اور معاملے کے درست حقائق جاننے کے لئے اس صفحہ کو ریفریش کریں۔
متعلقہ خبریں