طالبان امریکہ امن معاہدے پر دستخط ہوگئے

امریکی افواج کے سربراہ سے طالبان رہنماؤں کی ملاقات

فائل فوٹو


طالبان اور امریکہ کے درمیان جنگ بندی کیلئے دو سال سے جاری مذاکرات کے بعد آج امن معاہدے پر دستخط  ہو گئے ہیں۔

امریکہ کی جانب سے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور طالبان کی جانب سے ملا عبدالغنی برادر نے دستخط کیے۔

معاہدے کے تحت امریکہ پہلے مرحلے میں ساڑھے چار ہزار فوجی افغانستان سے نکالے گا اور ساڑھے 8 ہزار فوجیوں کا انخلا معاہدےپر مرحلہ وار عملدرآمد سے مشروط ہے۔

افغان جیلوں سے 5 ہزار طالبان قیدی مرحلہ وار رہا کیے جائیں گے اور طالبان افغان حکومت کےساتھ مذاکرات کے پابند ہوں گے اور دیگر دہشت گردوں سےعملی طور پر لاتعلقی اختیار کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان امن معاہدہ طے پاگیا: صدر ٹرمپ کی توثیق کا انتظار

امریکہ اور طالبان کےدرمیان امن معاہدے پر دستخط کی تقریب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوئی جس میں دونوں فریقین اور پاکستان سمیت تیس سے زائد ممالک نے شرکت کی۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو طالبان نمائندوں کے ساتھ سمجھوتے کی تقریب میں شامل ہوئے

امریکی سیکرٹری دفاع اور نیٹو سیکرٹری جنرل  کابل کا دورہ کیا جس کے بعد وزیر دفاع  مارک ایسپراور جنرل اسٹولٹن برگ افغان صدرکےساتھ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا کریں گے۔

افغانستان میں یورپین یونین کے مندوب رونالڈ کوبائی نے کہا ہے کہ فریقین نے پاسداری کی تو افغانستان میں امن بحال ہونے لگے گا۔ کابل اور دوحہ ایونٹس افغان امن عمل کے لئے راہ ہموار کریں گے اور پورپی یونین اس کی حمایت کرتی ہے۔

ترجمان افغان طالبان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ بیس سال کے بعد افغانستان  پر امریکہ کے قبضے کو پرامن طریقے سے ختم کرانے میں کامیاب ہوگئے۔

ہم نیوز سے خصوصی گفتگو میں  سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ معاہدے پر دستخط کے بعد اسی کے مطابق آگے چلیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹرا افغان مذاکرات بھی کئے جائیں گے تاکہ افغانستان کے اندر دائمی امن آسکے۔ سہیل شاہین  کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمارا ہمسایہ ہے، پاکستان کے ساتھ  مذہبی ثقافتی رشتہ ہے ، چالیس لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں گزشتہ چالیس سال سے رہ رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکہ اور طالبان نے امن معاہدے کی تصدیق کردی

اس وقت بھی بیس لاکھ سے زائد افغانی موجود ہیں، سویت دور میں پاکستان نے افغانستان کا ساتھ دیا،  اب بھی پاکستان نے مسئلہ افغانستان کے پر امن حل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل میں پاکستان سمیت تمام ہمسایوں سے بہتر تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور یہ سب کے مفاد میں ہیں۔ کسی کو افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے،یہ ہمارے معاہدے کا بھی حصہ ہے۔

طالبان امریکہ مذاکرات کا پس منظر

خیال رہے کہ ستمبر 2018 میں زلمے خلیل زاد کو افغانستان کے لیے امریکہ کا خصوصی ایلچی مقرر کیا گیا تھا اور 12 اکتوبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان  مذاکرات کے نیے دور کا آغاز ہوا۔

دسمبر 2018 میں افغان طالبان نے مسئلہ افغانستان کے حل کے لیے امریکہ سے مذاکرات جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ طالبان نے صدر اشرف غنی کی حکومت کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے اس سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان بھی کیا۔

پچیس فروری 2019 کو دوحہ میں افغان طالبان اور امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور ہوا جس میں ممکنہ امن معاہدے کے ڈرافٹ پر اتفاق ہوا۔

امریکہ نے افغانستان سے فوجی انخلا کی یقین دہانی کروائی اور طالبان نے امریکہ کو یقین دلایا کہ افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

بارہ اگست 2019 کو امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آٹھواں دور ہوا۔ ستمبر میں زلمے خلیل زاد نے اعلان کیا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے پر اتفاق ہو چکا ہے۔

اسی دوران طالبان نے کابل میں ایک حملہ کیا جس میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے۔ آٹھ ستمبر کو امریکی صدر نے اپنی ٹویٹس کے ذریعے طالبان سے مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔

دسمبر 2019 کو افغان امن عمل ایک بار پھر شروع ہوا۔ بائیس فروری 2020 کو امریکہ اور طالبان نے سات دن کے لیے تشدد کم کرنے پراتفاق کیا گیا۔


متعلقہ خبریں