شہریت کا متنازع قانون، اقوام متحدہ کی بھارتی سپریم کورٹ سے مداخلت کی درخواست

شہریت کا متنازع قانون، اقوام متحدہ کا بھارتی سپریم کورٹ سے مداخلت کی درخواست

نئی دہلی: اقوام متحدہ نے شہریت سے متعلق متنازع قانون کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال اور فرقہ وارانہ فسادات پر بھارتی سپریم کورٹ سے مداخلت کی درخواست کی ہے۔

اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے حقوقِ انسانی  مچل بچلیٹ کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں متنازع قانون کے نتیجے میں ہونے والے فسادات پر بھارتی سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل کی گئی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے سے متعلق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کمیشن نے جنیوا میں برطانوی حکام کو آگاہ کردیا ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر ردعمل دیتے ہوئے بھارتی وزارت داخلہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا ہے کہ شہریت کا قانون بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔کسی غیر ملکی فریق کو بھارت کی مقامی عدالت میں درخواست دے کر معاملے میں مداخلت کا حق نہیں۔

بھارتی وزیر داخلہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ شہریت کا قانون سی اے اے آئینی طور پر درست ہے۔ قانون ہمارے آئینی اقدار کی تمام ضروریات کی تعمیل کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں دہلی فسادات میں 39 مسلمان ہلاک، حکومت خاموش تماشائی

ترجمان رویش کمار کا کہنا ہے کہ قانون تقسیم ہند کے سانحے سے پیدا ہونے والے انسانی حقوق کے بارے میں ہماری دیرینہ قومی وابستگی کا عکاس ہے۔

خیال رہے کہ شہریت کے متنازع قانون کے خلاف بھارت بھر میں احتجاج کا سلسلہ کئی ہفتوں سے جاری ہے۔ حالیہ دنوں دارالحکومت نئی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہونے والے فسادات میں 46 افراد مارے گئے تھے۔

خیار رہے کہ اس سے قبل بھارتی صحافی رعنا ایوب نے انکشاف کیا تھا کہ نئی دہلی فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام پہلے سے ہی منصوبے کا حصہ تھا۔

بھارتی صحافی رعنا ایوب نے بین الاقوامی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے مودی سرکار کی چالوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ نئی دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام کا ایک منظم کھیل کھیلا گیا۔

رعنا ایوب نے انکشاف کیا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام پہلے سے ہی منصوبے کا حصہ تھا جس میں پولیس، انتہا پسندوں اور بلوائیوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہ مسلمانوں کا قتل عام کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ سال 2002 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی زیرنگرانی ریاست گجرات میں ایک ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا اور آج بھی اسی مودی کی زیر نگرانی بھارت میں مسلمانوں کا منظم طریقے سے قتل عام کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں  ’بھارت مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے‘

رعنا ایوب نے کہا تھا کہ مسلم خاندان اپنی جانوں کو بچا کر دوسری جگہوں پر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور کئی مسلم خواتین کی عزتیں انتہا پسندوں نے  پامال کیں جبکہ مذہبی نعرے لگاتے ہوئے مساجد کو بھی تباہ کیا گیا۔

بھارتی صحافی نے مسلم کش فسادات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بھارت دورے سے بھی جوڑا۔

رعنا ایوب نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب نئی دلی میں قتل و غارت ہورہی تھی اس دوران ملک کا وزیر داخلہ نفرت انگیز تقاریر کر رہا تھا۔

بھارتی صحافی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں اتنا بڑا سانحہ ہو گیا لیکن بھارتی وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے متاثرہ علاقوں کا دورہ تک نہیں کیا۔


متعلقہ خبریں