سرعام پھانسی دینے سے معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا، اسلام آباد ہائی کورٹ

فائل فوٹو


اسلام آباد:  چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے تعلیمی اداروں میں بچوں پر جسمانی تشدد کے خلاف کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ سرعام پھانسی دینے سے معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا، انسانی رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گلوکار شہزاد رائے کی درخواست پر سماعت کی۔ معروف گلوکار شہزاد رائے اپنے وکیل شہاب الدین اوستو کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش جب کہ وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیری مزاری بھی عدالت میں پیش ہوئیں۔

شہزاد رائے کے وکیل شہاب الدین اوستو نے عدالت کو یاد دہانی کرائی کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے حکومت کو کچھ ہدایات جاری کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ’مار نہیں پیار‘ کے باوجود اسکولوں میں تشدد جاری

سرکاری وکیل نے بتایا کہ وزارت داخلہ اور آئی جی کی رپورٹ میں کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں آئی۔  چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ قانون سازی کا کیا ہوا؟

ڈاکٹر شیری مزاری نے بتایا کہ وزیراعظم نے بچوں کو جسمانی سزا پر مکمل پابندی کا حکم دیا ہے اور بل بھی کابینہ سے منظور ہو گیا تھا لیکن وزارت قانون نے کہا کہ یہ وزارت داخلہ کا اختیار ہے،  وزارت داخلہ نے کہا کہ یہ معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو جانا چاہیے۔

وزیربرائے انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بچوں کو سز دینے پر پابندی کی مخالفت کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب بل کی کابینہ نے منظوری دے دی تھی پھر وزارت داخلہ کو تو بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیں:  اسلام آباد ہائیکورٹ کا اسکولوں میں تشدد فوری روکنے کا حکم

جج نے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ پاکستان پینل کوڈ کا آرٹیکل89 پڑھ کر سنائیں۔ وکیل شہاب الدین اوستو نے آرٹیکل89 پڑھ کر سنایا جس کے مطابق بچوں کے والدین یا ورثا اچھی نیت کے ساتھ تشدد کی اجازت دے سکتے ہیں۔

شہزاد رائے نے مؤقف اپنایا کہ والدین یا بچوں کے ورثا کو بھی کیسے حق ہے کہ وہ تشدد کی اجازت دیں۔ پینل کوڈ کی سیکشن 89 کی دوبارہ تشریح ہونے کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ اسلام بچوں پر تشدد کی اجازت نہیں دیتا، ہمیں 97 فیصد مسلمانوں کو شرمسار ہونا چاہیے کہ بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔

عدالت سے استدعا کی گئی کہ بچوں پر تشدد کا بل دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی ہدایت دی جائے۔  چیف جسٹس نے کہا کابینہ بل کی منظوری دے چکی، بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

جج نے سیکرٹری قانون کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پرعدالت میں پیش ہونے کے لئے نمائندہ مقرر کریں اور بتائیں کہ بل قومی اسمبلی میں کیوں نہیں پیش کیا جا رہا۔


متعلقہ خبریں