پنجاب خواندگی اور غیر رسمی تعلیم کی پالیسی کے نکات سامنے آ گئے

پنجاب خواندگی اور غیر رسمی تعلیم کی پالیسی کے نکات سامنے آ گئے

لاہور: تعلیم کو عام کرنے کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے خواندگی (لٹریسی) اور غیر رسمی تعلیم کی پالیسی کے نکات سامنے آ گئے ہیں۔

نئی پالیسی کے تحت پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں تعلیم کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ پہلی لٹریسی پالیسی کے تحت پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو فروغ دیا جائے گا۔

نئی پالیسی کے تحت  انسانی وسائل کی ترقی (ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ) کو یقینی بنایاجائےگا۔ نگرانی اور جائزہ (مانیٹرنگ اور ایوالیویشن) سسٹم فراہم کیا جائے گا۔

نئی پالیسی کے تحت معلوماتی اور مواصلاتی (انفارمیشن اور کمیونیکیشن) ٹیکنالوجی کو پروان چڑھایا جائے گا۔ پالیسی کے تحت خواندگی اور غیر رسمی تعلیم  کے معیار  کو بہتر بنایا جائے گا۔

مزید پڑھیں: پنجاب: نجی تعلیمی اداروں کے سب کیمپس غیر قانونی قرار

نئی پالیسی کے تحے انتظام اور منصوبہ بندی (مینجمنٹ اینڈ پلاننگ) کی صلاحیت کو بہتر بنایا جائے گا۔ غیر رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں اور ہم نصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے گا۔

پنجاب حکومت کی جانب سے خواندگی کے حوالے سے نئی پالیسی کے تحت لیبر مارکیٹ کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اقدامات کیے جائیں گے۔

نئی پالیسی کے تحت صوبائی اور قومی پالیسیز کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائےگی۔ چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے خلا کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

پجناب حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی پالیسی کے تحت گورننس کے مسائل کو حل کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: ہر بچے کو کمپیوٹر کی تعلیم دینا پی ٹی آئی حکومت کا عزم ہے، وزیراعلیٰ پنجاب

خیال رہے کہ 2041 میں منظور ہونے والے پنجاب مفت اور لازمی تعلیمی ایکٹ پر 6  سال گزرنے کے باوجود صوبائی حکومت قانون پر عمل درآمد نہ کروا سکی ہے۔

قانون پر عملدرآمد نہ ہونے سے پنجاب کے لاکھوں بچے اسکول جانے سے اب تک محروم ہیں۔ سال 2010 میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کا سونپ دیا گیا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق 18 ویں ترمیم کے بعد لازمی اور مفت تعلیم ایکٹ کو پاس ہوئے 6  سال ہوگئے ہیں۔ سال 2014 میں صوبائی اسمبلی میں مفت اور لازمی تعلیم ایکٹ پاس ہوا تھا، لیکن ایکٹ کی منظوری کے 5 سال بعد بھی قوانین نہ بنائے جا سکے ہیں۔

غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پنجاب میں 60 لاکھ بچے اسکولوں سے محروم ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ڈیرھ سال سے زیادہ  کا عرصہ گزرنے کے باوجود قوانین نہ بنا سکی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت 5 سے 16 سال کے بچوں کیلئے تعلیم بنیادی حق ہے۔

سماجی کارکن بیلا رضا کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 25 اے پر سست روی اور ایکٹ پر عملدرآمد  کے اثرات پائیدار ترقیاتی اہداف 2030 پر پڑے گا۔


متعلقہ خبریں