بھٹہ مزدور:دور جاہلیت کی بری یادگار

پاکستان میں بھٹہ مزدوروں کا استحصال،دور جاہلیت کی یاد تازہ | urduhumnews.wpengine.com

دور جدید میں اس سے بڑا ستم کیا ہو گا کہ جن بچوں نے اسکول جانا تھا وہ والدین کی غربت کے باعث کم عمری میں ہی محنت مشقت پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دور جاہلیت میں مزدوروں کو انتہائی کم معاوضے کے عوض خرید کر ’غلام ‘بنالیا جاتا تھا اوران سے ہر طرح کی مزدوری کرائی جاتی تھی۔ اس وقت کا سماج اس کو ’جائز‘ بھی قراردیتا تھا۔

وقت کا پہیہ گھوما تو حالات بدلے لیکن بھٹہ مزدورآج بھی دور جاہلیت کی ایک ’بری‘ یادگار کی طرح ہمارے معاشرے اور سماج کے ماتھے پر’کلنک‘ کی طرح موجود ہیں۔ اس سے بڑا ظلم و ستم اور کیا ہوگا کہ اکیسویں صدی میں بھی بھٹہ مزدور استحصال کا شکار ہیں اور نسل درنسل غلامی کی چکی میں پس رہے ہیں۔

بھٹہ مالکان غریب ماں باپ کی ’مجبوریوں‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے چھوٹے و کمسن بچوں سے بھی معمولی ’یومیہ اجرت‘ پر دن بھر کی ’خاصی‘ مشقت لے لیتے ہیں۔

بھٹہ مالکان غریب مزدوروں کی کمزورمعاشی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر قرضوں کا اتنا بوجھ ڈال دیتے ہیں کہ وہ ساری زندگی ادا ہی نہیں کرسکتے اوربھٹہ مالکان کے ’غلام‘ بن کر رہ جاتے ہیں۔

مزدوروں کے کمسن بچے جن کے کھیلنے کھودنے اوراسکول جانے کی عمر ہوتی ہے بھٹہ مالکان ان سے بھی مشقت کرانے سے نہیں شرماتے ہیں۔

افسوسناک امر ہے حکومت کی جانب سے بھٹہ مالکان کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی ہے  جس کی وجہ سے بھٹہ مالکان ڈھٹائی کے ساتھ مزدوری کرواتے نظر آتے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں غلطی مزدوروں کی بھی ہوتی ہے کہ وہ جانتے ہوئے بھی کہ قرض کا بوجھ نہیں اتار سکتے بھٹہ مالکان سے قرض لے لیتے ہیں۔

سخت گرم اور ٹھنڈے موسم میں بھی مزدور صبح سویرے کام پر پہنچ جاتے ہیں۔ گارے سے اٹے ہاتھ اوربھٹی کی حدت، جس سے بھٹہ مزدور کا دن شروع ہوتا ہے اوراسی پراختتام پذیربھی ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین تو موجود ہیں لیکن اُن قوانین پرعملدرآمد نہیں کیا جاتا ہے۔

بھٹہ مالکان مزدوروں کو سال بھر کی یکمشت ادائیگی کے عوض اپنا ’غلام‘ بنالیتے ہیں اورمزدوروں سے مرضی کا کام کروایا جاتا ہے۔ مزدوروں کو ایک اینٹ بنانے کے تقریباً 50 پیسے ملتے ہیں۔

مزدوروں سے متعلق قوانین میں فیکٹریز ایکٹ 1934، پنجاب انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ 2010، معاوضہ جات کا قانون 1923، تنخواہوں کی ادائیگی کا ایکٹ 1936، کم از کم اجرت آرڈیننس 1961, ایمپلائز سوشل سیکیورٹی آرڈیننس 1965 اور ایمپلائز اولڈ ایج بینفٹ ایکٹ 1976 موجود ہیں۔

پاکستان میں مزدوروں سے متعلق قوانین عمر، جنس اور مذہب کی کوئی قید نہیں ہے ۔ ملکی قوانین کے تحت بچوں سے مشقت لینا منع ہے۔ انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن اور پاکستان کا آئین جبری مشقت کو غلامی کی ایک شکل قرار دیتا ہے۔

پنجاب میں گزشتہ سال 785  بھٹہ مالکان اور منیجرز کو ’چائلڈ لیبر‘ کے جرم میں زیر حراست لے کر ان کے خلا ف مقدمات بھی قائم کیے گئے۔


متعلقہ خبریں