ایم بی اے ڈگری بوجھ بن گئی

ایم بی اے ڈگری بوجھ بن گئی | urduhumnews.wpengine.com

اسلام آباد: شارجہ کے ایک شاپنگ مال میں دکان پرمیٹراسکیل سے کپڑا ناپتے حسیب کو دیکھنا عجیب سا لگتا ہے، کوئی یقین نہیں کرسکتا کہ سات سال قبل انہوں نے سندھ یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا تھا۔

لیکن پھر رات دن کی کاوشوں کے بعد بھی ملازمت پانے کے لیے ان کی مراد بر نہ آئی۔ اس مرحلے پر شارجہ کے ایک بنک میں کام کرنے والی ان کی اہلیہ نے انہیں کپڑے کی دکان کھلوادی۔

حسیب پاکستان سے کپڑے منگواکر فروخت کرتےہیں۔ اپنی والدہ کو پوتے سے ملانے بھی شارجہ نہیں لے جاتے ہیں کہ ان کے لئے بیٹے کو کپڑا بیچتے دیکھنا مشکل ہو گا۔

حسیب کہتے ہیں کہ ’’ان کی بہن نے بھی حیدرآباد میں قائم ایک نجی یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا تھا، اب ایک اسکول میں بچوں کو پڑھا رہی ہیں‘‘۔ مگر! اس کی وجہ کیا ہے؟

کیا اس کی وجہ ان کا تعلیمی معیار ہے؟ یا ان کے تعلیمی ادارے کا بہت مشہور نہ ہونا ہے یا ایم بی اے اب نوجوانوں کو بہتر مستقبل کی ’گارنٹی ‘دینے سے قاصر ہوگیا ہے؟

ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں ہم نے متعدد ایم بی اے گریجویٹس سے بات کی، ان کی ’داستان‘ خود انہی کی زبانی سنیں۔

ڈاکٹر عنبرین نے کراچی کے ایک بڑے اسپتال میں ملازمت کے دوران ملک گیر شہرت کے حامل ایک بڑے ادارے سے ایم بی اے کیا۔ جس کے بعد وہ اپنے خاوند کے ہمراہ ریاض، سعودی عرب آگئیں۔ اب بچوں کو گھر پر پال رہی ہیں کیوں کہ جو کچھ انہیں پڑھایا گیا تھا وہ ’آؤٹ آف ڈیٹ‘ ہو گیا ہے۔

ریاض میں مقیم ڈاکٹر عنبرین کو یقین ہے کہ’’ اگر وہ ایم بی اے کرنے کے بجائے ایف سی پی ایس کرتیں تو آج بطور کنسلٹنٹ ملازمت کررہی ہوتیں‘‘۔

ڈاکٹر عنبرین کی بات کی تصدیق معروف مصنف اور بزنس مین Seth Godin بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ایم بی اے مخصوص دور کا کاروبار سکھاتا ہے، زمانے کے اصول بدلتے رہتے ہیں اور نتیجتاً ایم بی اے گریجویٹ پارٹ ٹائمر بن جاتے ہیں‘‘۔

امریکی ٹائی کون DAVI CANCEL جو متعدد سافٹ ویئر کمپنیوں کے مالک بھی ہیں، یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’ایم بی اے وقت ضائع کرنے والی بات ہے‘‘۔

ویب بلاگر اور مصنف MICHAEL ELLSBERG کا کہنا ہے کہ ’’ایم بی اے کسی ادارے کا سی ای او نہیں ہوتا لیکن سی ای او کئی ایم بی ایز کو ملازم رکھتا ہے‘‘۔

فیس بک کی سی او او(چیف آپریٹنگ آفیسر) SHERYL SANDBERG کہتی ہیں کہ ’’ فیس بک کو ایم بی ایز کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ٹیکنالوجی میں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘‘۔

آسٹریلیا میں گذشتہ پانچ سال سے مقیم آئی ٹی ایکسپرٹ اسد عمر نے آئی ٹی انجینئرنگ کرنے کے بعد ایم بی اے بھی کیا لیکن اب کہتے ہیں کہ’’ محض وقت، پیسہ اور انرجی ضائع کی‘‘۔

اسد عمر اپنے تجربے سے بتاتے ہیں کہ ’’پاکستان میں جامعات نے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب تیار کرنے کے بجائے گھسے پٹے نصاب کو رائج کرکے ریوڑیوں کی طرح ایم بی اے کی ڈگریاں بانٹیں‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ’’آج نوجوان اسی لئے ایم بی اے کی ڈگریاں لئے ملازمت کے لئے دھکے کھاتے پھررہے ہیں‘‘۔

اسد عمر کا دعویٰ ہے کہ ’’مستقبل آئی ٹی کا ہے لہذا نوجوان اس طرف آئیں‘‘۔

لاہور سے ایم بی اے کرنے والے نوشاد کو ’تگڑی‘ سفارش کے بعد محض 21 ہزار روپےکی ملازمت نجی بینک میں ملی ہے۔ انہیں ہر دن ملازمت جانے کا دھڑکا بھی لگا رہتا ہے،اس لئے وہ بینک ڈپازٹس میں اضافے کی تگ ودو میں مصروف رہتے ہیں۔

لاہور میں مقیم کیرئیر کاؤنسلر خدیجہ احمد کا کہنا ہے کہ’’ایم بی اے پر سات سے آٹھ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں جو بڑی رقم ہے‘‘۔ وہ بھی اسد عمر کی ہم خیال ہیں کہ ’’مستقبل ایم بی اے کے بجائے آئی ٹی ایجوکیشن کا ہے‘‘۔

خدیجہ احمد کہتی ہیں’’ بڑے کاروباری ادارے بھی ایم بی اے ڈگری ہولڈرز کو پسند نہیں کرتے ہیں‘‘۔ وہ کہتی ہیں کہ’’ کامیاب کاروباری شخصیات تو اس تعلیم کو غیر ضروری اور وقت کا ضیاع بھی قرار دیتی ہیں‘‘۔

کیرئیر کاؤنسلر خدیجہ احمدکا مشورہ ہے کہ ’’جہاں تک ممکن ہو ایم بی اے کو نوکری نہ دیں کیوں کہ ایم بی اے پروگرام طلبا کو کمپنی بنانا نہیں سکھاتا ہے‘‘۔

ایم بی اے گریجویٹس کے تجربات یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ ایم بی اے ڈگری اب ملازمت کے حصول کی گارنٹی نہیں ہے۔ حالات بتاتے ہیں کہ ایم بی اے بڑی حد تک وقت،پیسے اور انرجی کا ضیاع بن کر بوجھ بھی بن گئی ہے۔


متعلقہ خبریں