پاکستان میں اینٹی بائیوٹک کے استعمال میں 65 فیصد اضافہ


واشنگٹن: امریکا میں کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 15 برسوں کے دوران پاکستان میں ‘اینٹی بائیوٹکس’ کے استعمال میں 65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

امریکی تحقیقی جنرل پروسیڈنگ آف نیشنل اکیڈمی آف سائنسز(پی این اے ایس) کی رپورٹ کے مطابق ایشیائی ملک بھارت میں ایسی دواؤں کے استعمال میں دگنا اضافہ ہوا جب کہ چین میں 79 اور پاکستان میں 65 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

تحقیق کے لیے 76 ممالک سے اعداوشمار جمع کیے گئے۔ نتائج میں بتایا گیا ہےکہ 2000ء سے 2015ء کے دوران ‘اینٹی بائیوٹک’ دواؤں کا استعمال بڑھا۔ ترقی یافتہ یا مالدار ملکوں کے مقابلے میں غریب اور ترقی پذیر ممالک نے ان کا زیادہ استعمال کیا۔

تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی امریکی ریاست بالٹی مور کی جان ہوپکنز یونیورسٹی اور دی سینٹر فار ڈیزیز ڈائنامکس، اکنامکس اینڈ پالیسی کے سائنسدانوں نے کی۔

سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ تمام متاثرہ ممالک کو اینٹی بائیوٹکس کے متبادل علاج، صاف ستھرے ماحول اور ویکسین کے لیے تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

محقیقین نے اینٹی بائیوٹک دواؤں کو عالمی سطح پر صحت کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث درجہ حرارت نامعلوم حد تک بڑھ جانے سے مستقبل میں اینٹی بائیوٹکس بے اثر ہوسکتی ہیں۔

تحقیق کے مطابق 2000 میں ان دواؤں کا استعمال 21.2 ارب خوراکیں یومیہ تھا جو 2015 میں اضافے کے ساتھ 34.8 ارب ہوگیا۔

ایلی کلین نامی محقق نے خبردار کیا کہ اینٹی بائیوٹیکس کا استعمال بڑھنے سے ان کے مضر اثرات کے پھیلاؤ میں بھی تیزی آ رہی ہے۔ اس وقت تمام ممالک کی سب سے پہلی ترجیح ‘اینٹی بائیوٹکس’ کے استعمال کا خاتمہ ہونا چاہئیے۔

معالجین کے مطابق اینٹی بائیوٹک دواؤں کا استعمال انسانی جسم میں ایسی مزاحمتی قوت پیدا کرتا ہے جو دیگر دواؤں کو بھی بے اثر کر دیتی ہے۔ اسی خدشے کے پیش نظر تجویز کیا جاتا ہے کہ سیلف میڈیکیشن (خود دوا منتخب کرنے کا عمل) نہ کی جائے اور دواؤں کے استعمال سے حتی الوسع بچا جائے۔

ماہرین طب تجویز کرتے ہیں کہ احتیاط، اپنا طرز زندگی معتدل رکھنے اور غذاؤں کے ذریعے صحت کو برقرار رکھنا ترجیح ہونا چاہئے۔


متعلقہ خبریں