چین نے کورونا کو شکست کیسے دی؟

کورونا: چین کا ڈبلیو ایچ او کو ابتدائی کیسز کا ڈیٹا فراہم کرنے سے انکار

چین کے ماہرینِ صحت اور سائنس دانوں کے مطابق کورونا وائرس کے خلاف جنگ کا مشکل ترین وقت اب گزر گیا ہے اور اس بیماری کی دوسری بڑی لہر کا سال کے آخر میں آنے کا اندیشہ بھی ظاہر کیا ہے۔

جیسے جیسے یہ مرض دوسرے ممالک میں پھیل رہا ہے، بڑی تعداد میں ممالک اپنے آپ کو بدترین صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ تاہم چین کی جانب سے کئے جانے والے سخت اور وقتی انتظامات نے اس وبا پر قابو پانے کے اقدامات کو کافی حد تک یقینی بنایا اور مقامی سطح پر کم از کم ہفتوں میں مکمل کنٹرول میں لانے میں کامیاب ہو گئے۔

چینی حکام کا کہنا ہے کہ چھ کروڑ افراد پر لاک ڈاؤن اور لاکھوں پر سفری پابندیوں کا فیصلہ درست ثابت ہوا ہے اور وائرس کو قابو کرنے میں مؤثر رہا۔

اگرچہ چینی حکومت بیرون ملک سے درآمد ہونے والے کیسز پر محتاط ہیں مگر چین 2019 میں آنے والے کورونا وائرس کا بھی اسی طرح مقابلہ کر رہا ہے جس طرح 2003 میں آنے والے سیوئیر ایکیوٹ رسپائریٹری سنڈروم (سارس) کا خاتمہ بالآخر سخت اسکریننگ اور قرنطینہ اقدامات سے کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس، دنیا بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 13050 ہو گئی

پیکنگیونین میڈیکل کالج ہسپتال کی نائب ڈائریکٹر کائو ویکا کہنا ہے کہ اُن کے لئے اس وبا کی دوسری لہر کا چین میں آنا بڑی پریشانی کی بات نہیں ہوگی کیونکہ موجودہ اقدامات وبا کو قومی سطح پر ختم کرنے کے لئے کا فی ہونے چاہئیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق فروری کے آخر میں چین میں کورونا وائرس اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا۔ سینئر حکومتی مشیرژونگ نانشن جنھوں نے 2003 میں سارس کا پتا لگانے اور ختم کرنے میں مدد دی تھی، کا کہنا ہے کہ اگر دوسرے ممالک وقت پر مطلوبہ کارروائی کرتے ہیں تو کورونا وائرس جون تک ختم ہوسکتا ہے۔

چینی سیل بیالوجی انسٹی ٹیوٹ کے نائب ڈائریکٹر گائو ژینگینگ نے ایک نجی اخبار کو انٹرویو میں بتایا کہ چین نے کورونا وائرس کو شکست دینے کے لئے 100 میں سے 99 اقدامات کو مکمل کر لیا ہے۔ تاہم اگر اس وائرس کو عالمی سطح پر کنٹرول نہ کیا گیا تو چین کی دی ہوئی قربانیاں اور لاگت ضائع ہو جائیں گی۔

باقی دنیا بھی چین کے اٹھائے گئے اقدامات پر عمل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن چین کی جانب سے پیش کئے گئے اعدادوشمار پر تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ اصل امتحان تب ہو گا جب روزمرہ زندگی کے دوبارہ شروع ہونے سے یہ وائرس دوبارہ سے بھڑک اُٹھتا ہے کہ نہیں۔

چین کی اس مہم سے لوگوں کی روزگاراور ذاتی آزادی پر بہت منفی اثر ہوا ہے۔اس سے دوسرے ممالک اس حکمتِ عملی پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا اس بیماری سے اس کا علاج ذیادہ بدتر ہے؟

چند ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ وائرس تیزی سے پھیل گیا تو چین کا لاک ڈاؤن بے معنی ہوجائے گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ وائرس کے عالمی سطح پر پھیلاؤ اورمعمولی علامات کی نشاندہی میں دشواری کے پیش نظرچین میں بھی اس کا مکمل طور پر خاتمہ ناممکن نظر آرہا ہے۔


متعلقہ خبریں